Tafseer-e-Madani - Al-Ahzaab : 26
وَ اَنْزَلَ الَّذِیْنَ ظَاهَرُوْهُمْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مِنْ صَیَاصِیْهِمْ وَ قَذَفَ فِیْ قُلُوْبِهِمُ الرُّعْبَ فَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ وَ تَاْسِرُوْنَ فَرِیْقًاۚ
وَاَنْزَلَ : اور اتار دیا الَّذِيْنَ : ان لوگوں کو ظَاهَرُوْهُمْ : جنہوں نے ان کی مدد کی مِّنْ : سے اَهْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب مِنْ : سے صَيَاصِيْهِمْ : ان کے قلعے وَقَذَفَ : اور ڈال دیا فِيْ : میں قُلُوْبِهِمُ : ان کے دل الرُّعْبَ : رعب فَرِيْقًا : ایک گروہ تَقْتُلُوْنَ : تم قتل کرتے ہو وَتَاْسِرُوْنَ : اور تم قید کرتے ہو فَرِيْقًا : ایک گروہ
اور اس نے اتار دیا ان اہل کتاب کو ان کے قلعوں سے جنہوں نے پشت پناہی (اور مدد) کی تھی ان (حملہ آوروں) کی اور اس نے ڈال دیا ان کے دلوں میں رعب (جس کے نتیجے میں) تم ان میں سے کچھ کو قتل کر رہے تھے اور کچھ کو قیدی بنا رہے تھے
48 یہودیوں کو ان کے مضبوط قلعے کچھ بھی کام نہ آسکے : سو ارشاد فرمایا گیا " اور اس نے اتار دیا ان اہل کتاب کو انکے مضبوط قلعوں سے جنہوں نے باہر سے آنے والے ان دشمنوں کی پشت پناہی کی تھی "۔ یعنی یہود بنو قریظہ کو جنہوں نے عین موقع پر غداری اور عہد شکنی کر کے مسلمانوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپا تھا۔ " صیاصی " جمع ہے " صیصہ " کی۔ بمعنی قلعہ، گڑھی وغیرہ۔ سو ان یہود بےبہود کے وہ مضبوط قلعے اور وہ پختہ گڑھیاں جن پر ان کو بڑا ناز تھا کہ ان کے اندر آ کر کون ہم پر حملہ آور ہوسکتا ہے، وہ اس موقع پر ان کے کچھ بھی کام نہ آسکیں ۔ { اَتَاہُمُ اللّٰہُ مِنْ حَیَثُ لَمْ یَحْتَسِبُوْا } ۔ (الحشر : 2) ۔ سو اپنے کیے کرائے کی پاداش اور اس کے نتیجے میں ان لوگوں کو اپنے ان قلعوں سے نیچے اترنا پڑا اور بےبسی اور بےکسی کی تصویر بن کر اپنے آپ کو مسلمانوں کے حوالے کرنا پڑا۔ اللہ نے ان کے دلوں میں ایسا رعب ڈال دیا کہ وہ اپنے گھروں کو خود اپنے ہاتھوں اور اہل ایمان کے ہاتھوں اکھاڑ اور اجاڑ رہے تھے۔ ارشاد فرمایا گیا ۔ { وَقَذَفَ فِیْ قُلُوْبِہِمُ الرُّعْبَ یُخْرِبُوْنَ بُیُوْتَہُمْ بِاَیْدِیْہِمْ وَاَیْدِی الْمُوْمِنِیْنَ فَاعْتَبِرُوْا یٰا اُوْلِی الْاَبْصَارِ } ۔ (الحشر : 2 ) ۔ سو اصل حفاظت اللہ پاک کی حفاظت ہے جس سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ صدق ایمان و یقین ہے ورنہ محرومی ہی محرومی اور دھوکہ ہی دھوکہ ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم - 49 یہود بنوقریظہ کے عجز اور ان کی بےبسی کی تصویر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " اللہ تعالیٰ نے دلوں میں ایسا رعب ڈال دیا تھا کہ انمیں سے کچھ کو تم قتل کر رہے تھے اور کچھ کو قیدی بنا رہے تھے "۔ غزوئہ اَحزاب کے بعد جب آنحضرت ﷺ نے یہود بنو قریظہ پر لشکر کشی کا حکم فرما دیا تو یہ لوگ اس سے بچاؤ کے لئے اپنے ان مضبوط قلعوں میں بندہو گئے جن پر ان کو بڑا گھمنڈ اور ناز تھا۔ مسلمانوں نے ان کے قلعوں کا محاصرہ کرلیا جو کوئی بیس پچیس دن تک جاری رہا۔ آخر کار یہودیوں کے دلوں میں قدرت کی طرف سے ایسا رعب پڑا کہ انہوں نے ہتھیار ڈال دئے اور کہا کہ ہم قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ ؓ کو اپنا حاکم اور منصف تسلیم کرتے ہیں۔ جو فیصلہ وہ ہمارے بارے میں کریں گے وہ ہمیں منظور ہوگا۔ قبیلہ اوس چونکہ زمانہ جاہلیت میں ان یہودیوں کا حلیف تھا اس لئے انہوں نے اس قبیلے کے سردار کو اپنا حکم تجویز کیا۔ چناچہ حضرت سعد بن معاذ ؓ نے ان کے بارے میں یہ فیصلہ فرمایا کہ ان کے مقاتلہ ۔ لڑنے والوں کو ۔ تو قتل کردیا جائے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے اور ان کے اموال و اَملاک کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردیا جائے۔ چناچہ ایسے ہی کیا گیا۔ اور اسطرح ان کے اسلحہ کے وہ تمام ذخائر بھی مسلمانوں کے ہاتھ لگ گئے جو انہوں نے ان کے خلاف لڑنے کے لئے جمع کر رکھے تھے اور وہ مال و دولت بھی جو انہوں نے سود خوری وغیرہ مختلف ذرائع سے جوڑ جوڑ کر رکھا تھا۔ اور اس کی تفصیلات سیرت و تفسیر کی کتابوں میں موجود ہیں۔ ان دونوں آیتوں میں اسی غزوئہ بنو قریظہ کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ اور اس عمدہ اور بےمثال طریقے سے کہ گویا پورے قصے کا عرق اور نچوڑ پیش فرما دیا گیا ۔ فَلِلّٰہِ الْحَمْدُ والشَّکْرُ ۔ بہرکیف ان دونوں آیات کریمہ میں یہود بنوقریظہ کے عجز اور ان کی بےکسی اور بےبسی کی تصویر پیش فرما دی گئی کہ اپنے جن ذرائع و وسائل پر ان کو بڑا ناز تھا ان میں سے کچھ بھی انکے کام نہ آسکا اور قدرت نے انکے دلوں میں ایسا رعب ڈال دیا تھا کہ انکے اندر کسی طرح کے مقابلے اور مقاومت کی کوئی سکت باقی نہیں رہ گئی تھی۔ جس کے نتیجے میں تم لوگ ان میں سے کچھ کو قتل کر رہے تھے اور کچھ کو قیدی بنا رہے تھے۔ سو معاملہ سب کا سب اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے۔ وہ جو چاہے اور جیسا چاہے کرے ۔ سبحانہ و تعالیٰ -
Top