Tafseer-e-Madani - Al-Ahzaab : 45
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ : بیشک ہم نے آپ کو بھیجا شَاهِدًا : گواہی دینے والا وَّمُبَشِّرًا : اور خوشخبری دینے والا وَّنَذِيْرًا : اور ڈر سنانے والا
اے پیغمبر ! ہم نے آپ کو بھیجا ہے گواہ بنا کر خوشخبری دینے والا اور خبردار کرنے والا
85 پیغمبر کے " شاہد " ہونے کا معنیٰ و مطلب ؟ : سو ارشاد فرمایا گیا " اے پیغمبر ہم نے آپکو گواہ بناکر بھیجا ہے "۔ یعنی حق و صداقت کا گواہ بنا کر۔ پس حق اور صدق وہی ہے جس کو آپ ﷺ نے حق اور صدق بتایا اور اپنے قول و فعل اور عمل و کردار سے اس کو واضح فرمایا ہے۔ جس میں سب سے بڑا حق اور تمام صداقتوں کی اساس و بنیاد اللہ پاک کی توحید و وحدانیت کی صداقت کبریٰ ہے۔ اور اس کی تعریف و توضیح میں وہی بات معتبر ہے جس کی تعلیم و تلقین آپ ﷺ نے فرمائی۔ اور اس کے علاوہ دنیا کی ہر حقیقت اور ہر صداقت کے بارے میں وہی بیان معتبر ہے جو آپ ﷺ کے لائے ہوئے قرآن اور آپ ﷺ کی چھوڑی ہوئی سنت کے مطابق ہوگا۔ اور حق و صداقت کی گواہی دینے والا آپکی ان تعلیمات مقدسہ کا یہ بےمثال خزانہ جو اب تک موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا۔ حق و صداقت کی گواہی اسی طرح دیتا رہے گا۔ یہاں تک کہ قیامت کے روز بھی سابقہ امتوں اور ان کے نبیوں کے بارے میں آخری اور معتبر شہادت آپ ﷺ ہی کی شہادت ہوگی جیسا کہ صحیح احادیث و روایات میں اس کی پوری تفصیل مروی و منقول اور مصرح و موجود ہے۔ اہل بدعت نے " شاھد " کے لفظ سے حاضر وناظر کے اپنے مشہور و معروف شرکیہ عقیدے پر جو استدلال کیا ہے اور ان کے بڑوں نے اپنی اس تحریف کو قرآن پاک کے ترجمے تک میں داخل کرنے اور اس کو گھسیڑنے کی جس جسارت کا ارتکاب کیا ہے وہ سب بےاصل و مردود اور ایک ایسا ظلم اور زیادتی ہے جسکی دوسری کوئی نظیر و مثال نہیں ہوسکتی۔ اور جو جمہور امت اور تمام ثقہ اہل علم کی تصریحات کے خلاف ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو لفظ " شاہد " سے حاضر و ناظر ہونا ثابت نہیں ہوسکتا کیونکہ گواہ کے لئے اور کسی حقیقت کی خبر دینے والے کے لئے موقع پر موجود ہونا اور اپنی آنکھوں سے دیکھنا ضروری نہیں ہوتا۔ ورنہ امت محمدیہ ساری کی ساری کو حاضر و ناظر ماننا پڑے گا کہ یہی لفظ دوسرے مقام پر ان سب کے لئے بھی استعمال فرمایا گیا ہے ۔ { لِتَکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلٰی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا } ۔ (البقرۃ : 143) ۔ پھر کلمہ شہادت پر ایمان رکھنے والا ہر مومن خدا، رسول، جنت، دوزخ اور آخرت وغیرہ تمام غیبی حقائق پر ایمان رکھتا اور ان کی گواہی دیتا ہے حالانکہ ان کو اس نے بچشم خود نہ دیکھا اور نہ ہی اس دنیا میں ان غیبی حقائق کو کوئی اپنی آنکھوں سے دیکھ ہی سکتا ہے۔ اور دیکھ کر ایمان لانا معتبر بھی نہیں کہ مطلوب و محمود تو وہ ایمان ہے جو کہ ایمان بالغیب ہو نہ کہ ایمان بالشہود و المشاھدۃ۔ اور ہم میں سے کتنے ہی ایسے ہیں جنہوں نے امریکہ، افریقہ اور یورپ وغیرہ کے بیشمار ملکوں کو نہیں دیکھا مگر ہم سب ان ملکوں کو مانتے اور ان کے وجود کی گواہی دیتے ہیں۔ سو اس سب سے معلوم ہوا کہ گواہی دینے کے لئے علم یقینی کی ضرورت ہوتی ہے نہ کہ ذاتی معاینہ و مشاہدہ کی۔ اور علم یقینی کے حصول کے طریقے اور ذرائع مختلف ہوسکتے ہیں اور ہوتے ہیں۔ جن میں سب سے بڑا اور قطعی ذریعہ وحی خداوندی ہے جو پیغمبر کو عطا فرمائی جاتی ہے۔ پس اس سے پیغمبر کا حاضر و ناظر ہونا لازم نہیں آتا۔ اسی لئے تمام ثقہ علمائے کرام اور جمہور مفسرین عظام " شاہد " کا مفہوم اس طرح بیان کرتے ہیں ۔ " اَیْ شَاہِدًا لِلّٰہِ بالوحْدَانیَّۃِ اَوْ علی الناس باعمالہم فی القیمۃ " ۔ (جامع البیان : ج 2 ص 170) ۔ " اَیْ شَاہِدَ اعلی اُمَّتِّکَ وَعَلٰی جِمِیْعِ الْاُمَمِ بِاَنَّ انبیاء ہم قد بلَّغوہم رسالۃ ربہم " ۔ (صفوۃ التفاسیر : ج 2 ص 530) ۔ " شاہداً بان لا الہ الّا اللّٰہُ " ۔ (روح : ج 22 ص 45، محاسن التاویل وغیرہ وغیرہ) سو ان حضرات میں سے کسی نے بھی " شاہد " کے معنیٰ حاضر و ناظر کے نہیں کیے بلکہ حق کی گواہی دینے والا ہی کیے ہیں۔ اور یہی بات پیغمبر کے لائق ہے۔ 86 پیغمبر کا اصل کام انذار و تبلیغ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " ہم نے آپ کو خوشخبری دینے والا اور خبردار کرنے والا بنا کر بھیجا ہے "۔ یعنی ماننے والوں کے لئے خوشخبری دینے والے کہ ان کے لئے دارین کے سعادت و سرخروئی کا سامان ہے۔ اور انکار کرنے والوں کے لئے خبردار کرنے والے ان کے ہولناک انجام سے ۔ والعیاذ باللہ ۔ پس آپ کی اصل صفت و شان انذار وتبشیر ہے اور بس ۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ ۔ پیغام حق و ہدایت کو بلا کم وکاست لوگوں تک پہنچا دینے سے پیغمبر کی ذمہ داری پوری ہوگئی۔ اس سے آگے لوگوں کو راہ حق و ہدایت پر ڈال دینا اور ان سے پیغام حق کو منوا لینا نہ آپ کے ذمے ہے اور نہ ہی یہ آپ ﷺ کے بس میں ہے۔ اس کا معاملہ اللہ وحدہ لاشریک ہی کے حوالے اور یہ اسی کی شان اور اسی کا کام ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ پیغمبر کا کام صرف ابلاغ اور تبلیغ ہے۔ جیسا کہ دوسرے مختلف مقامات پر اس کی مختلف اسالیب میں تصریح فرمائی گئی ہے۔ مثلا سورة مائدہ میں ارشاد فرمایا گیا کہ " فرمانبرداری کرو تم اللہ کی اور فرمانبرداری کرو اس کے رسول کی اور ڈرتے اور بچتے رہو تم لوگ ان کی نافرمانی سے۔ پھر اگر تم لوگ پھرے ہی رہے تو یقین جان لو کہ رسول کے ذمے تو بس پیغام پہنچادینا ہے کھول کر اور بس " (المائدۃ : 92) ۔ یعنی تبلیغِ حق کے بعد ان کی کوئی ذمہ داری نہیں۔ اس کے بعد اگر تم لوگوں نے اعراض و انکار ہی سے کام لیا تو اس کی ذمہ داری خود تم پر ہوگی جس کا بھگتان تم لوگوں کو بہرحال بھگتنا ہوگا۔ پس تم لوگ اپنے معاملے میں خود دیکھ اور سوچ لو۔ سو پیغمبر کا کام صرف انذار و تبلیغ ہے اور بس۔
Top