Tafseer-e-Madani - Al-Ahzaab : 46
وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا
وَّدَاعِيًا : اور بلانے والا اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف بِاِذْنِهٖ : اس کے حکم سے وَسِرَاجًا : اور چراغ مُّنِيْرًا : روشن
اور بلانے والا اللہ کی طرف اسی کے حکم سے اور ایک عظیم الشان روشن کرنے والا چراغ بنا کر
87 پیغمبر کی صفت و شان داعی الی اللہ : یعنی اس کی توحید وصفات اور اس پر ایمان و اطاعت اور عبادت و بندگی کی طرف۔ کیونکہ یہ وہ اہم حقائق اور بنیادی امور ہیں جن پر سارے معاملے کا مدارو انحصار ہے۔ اور یہی وہ بنیادی حقائق ہیں جن کی تعلیم و تبلیغ نور وحی کے بغیر ممکن نہیں۔ سو پیغمبر کی صفت و شان دعوت الی اللہ کی صفت و شان ہے۔ یعنی مخلوق کو اس کے خالق کی طرف بلانا اور دعوت دینا۔ سو { داعیاً الی اللہ } کے اسی ایک کلمہ کریمہ سے کئی اہم اور عظیم الشان حقائق واضح اور آشکارا ہوجاتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ پیغمبر کا مشن اور ان کا منصب و مقام سب سے بڑا اور سب سے اعلیٰ و افضل ہوتا ہے کہ ان کا مشن و مقام اور ان کا نصب العین مخلوق کو خالق کی طرف بلانا اور اس کی عبادت و بندگی کی دعوت دینا ہوتا ہے جو کہ انسان کے ذمے عائد ہونے والا سب سے بڑا، سب سے اہم اور سب سے مقدم فریضہ ہوتا ہے۔ اور خالق کی معرفت، اس کی وحی اور اس کے پیغمبر کی تعلیم و تلقین کے بغیر ممکن نہیں۔ اسی طرح اس سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ پیغمبر کا کام صرف بلانا اور دعوت دینا ہوتا ہے اور بس۔ اس سے آگے بڑھ کر اس دعوت کو منوا لینا اور لوگوں کو راہ حق پر ڈال دینا نہ پیغمبر کے بس میں ہوتا ہے اور نہ ہی یہ اس کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ دعوت و تبلیغِ حق کے بعد وہ اپنے ذمے سے سبکدوش ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد لوگ اپنے کیے کے ذمہ دار خود ہوتے ہیں۔ 88 سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے : پس سب کچھ اللہ ہی کے قبضہ قدرت و اختیار میں اور اسی کے اذن پر موقوف ہے ۔ سبحانہ وتعالی ۔ سو ارشاد فرمایا گیا " اللہ ہی کے اذن و حکم سے " نہ کہ اپنی طرف سے۔ کہ آپ ﷺ کا ہر کام وحی خداوندی کی بنا پر اور اسی کے مطابق ہوتا ہے کہ آپ ﷺ وحی کے بغیر بولتے بھی نہیں۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے صاف اور صریح طور پر ارشاد فرمایا گیا ہے اور حصر و تاکید کے ساتھ فرمایا گیا ہے ۔ { وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَویٰ اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی } ۔ ( النجم : 3-4) اور جب یہ سب کچھ اسی وحدہ لاشریک کی طرف سے اور اسی کے حکم و ارشاد سے ہے تو اس کی عظمت شان بھی بہت بڑی ہے اور اس کے اپنانے ہی میں دارین کی فوز و فلاح کا راز مضمر ہے۔ سو پیغمبر کی دعوت کو قبول کرنا اللہ کی دعوت کو قبول کرنا ہے اور اس سے اعراض کرنا اور منہ موڑنا اللہ کی دعوت سے اعراض کرنا اور منہ موڑنا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ نیز { بِاِذْنِہ } کی اس قید میں پیغمبر کے لیے تسلیہ و تسکین کا بڑا سامان ہے کہ دعوت الی اللہ کے اس عظیم الشان کام پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو خود مامور کیا ہے۔ اس لیے وہ آپ کو اس راہ میں تنہا نہیں چھوڑے گا بلکہ ہر مرحلہ و موڑ میں اور ہر قدم پر آپ کی مدد فرمائے گا۔ سو آپ اس کی نصرت و امداد اور اس کی توفیق و عنایت سے مخالفوں کی مخالفانہ سرگرمیوں کے علی الرغم اپنے مشن میں کامیاب ہوں گے۔ پس آپ اللہ کے بھروسے پر اور ان لوگوں کی ان مخالفتوں اور ایذا رسانیوں کی پروا کیے بغیر جادئہ حق پر مستقیم رہیں اور تبلیغِ حق کا فریضہ انجام دیتے رہیں ۔ { وَدَعْ اَذَاہُمْ وَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ } - 89 پیغمبر ایک سراج منیر : سو ارشاد فرمایا کہ " ہم نے اپ کو سراج منیر یعنی ایک عظیم الشان روشن کرنے والا چراغ بناکر بھیجا "۔ یعنی ہدایت و ایمان کی اس عظیم الشان روشنی کے ساتھ جس سے لاکھوں کروڑوں بلکہ اربوں کھربوں دلوں کو منور فرمایا گیا۔ اور آج تک بےحد و حساب دنیا اس سے مستفید ہو رہی ہے اور قیامت تک ہوتی رہیگی ۔ انشاء اللہ العزیز۔ اور ظاہر ہے کہ اس حقیقی اور دائمی روشنی کے مقابلے میں آسمان کے سورج کی اس ظاہری اور فانی روشنی کی بھی کچھ حقیقت نہیں۔ یہاں پر قرآن حکیم میں آپ ﷺ کو " شمس " ۔ سورج۔ کی بجائے لفظ " سراج " ۔ چراغ۔ فرمایا گیا ہے جس کے بارے میں علمائے کرام نے بہت سے اسرار و رموز کا ذکر فرمایا ہے۔ مثلاً یہ کہ چراغ تک ہر کسی کی رسائی ممکن اور آسان ہوتی ہے سورج تک نہیں۔ اس سے استفادہ ہر وقت کیا جاسکتا ہے جبکہ سورج سے صرف خاص اوقات میں۔ اس سے استفادہ اپنے ارادہ و اکتساب پر موقوف ہوتا ہے جبکہ سورج کا معا ملہ اس سے مختلف ہوتا ہے۔ صحیح مزاج والے اور صحت مند انسان کو اس سے کسی وقت ناگواری اور تکلیف نہیں ہوتی جبکہ سورج کی تمازت اور اس کی گرمی سے انسان کو بعض اوقات بچنا اور بھاگناپڑتا ہے۔ اور اس میں یعنی چراغ میں انیس ہونے کی شان پائی جاتی ہے جبکہ سورج میں یہ بات نہیں ہوتی وغیرہ وغیرہ۔ اور سب حکم و مصالح کا علم اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے ۔ وہو اعلم باسرار کلامہ سبحانہ وتعالی ۔ یہاں پر یہ بھی واضح رہے کہ جس طرح آفتاب نصف النہار کے بعد کسی ستارے وغیرہ کی روشنی کی ضرورت نہیں ہوتی، اسی طرح نبوت محمدیہ کے سراج منیر کے طلوع کے بعد کسی اور نبوت کی کوئی ضرورت نہیں ہوسکتی ۔ فصلوات اللّٰہِ وسَلَامہ عَلَیْہِ وعَلٰی اٰلہ وصَحْبہْ ومن والاہ ودعا بدعوتہ وبہداہ اہتدی الی یوم العرض علی اللّٰہِ واللقاء ۔ بہرکیف پیغمبر کو ایک ایسا عظیم الشان اور روشن چراغ بنا کر بھیجا گیا ہے جسکی روشنی سب دنیا جہاں کو روشن اور منور کرنے والی ہے۔ پس جو اس سے منہ موڑے گا ۔ والعیاذ باللہ ۔ وہ خود اپنی ہی ہلاکت اور تباہی کا سامان کرے گا کہ اس کے نتیجے میں وہ دنیا میں طرح طرح کے اندھیروں میں بھٹکے گا اور آخرت میں عذاب جحیم کے ہولناک ابدی انجام سے دوچار ہوگا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ ہمیشہ اپنی حفظ وامان میں رکھے ۔ آمین ثم آمین۔
Top