Tafseer-e-Madani - Al-Ahzaab : 53
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ اِلٰى طَعَامٍ غَیْرَ نٰظِرِیْنَ اِنٰىهُ١ۙ وَ لٰكِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَ لَا مُسْتَاْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍ١ؕ اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ١٘ وَ اللّٰهُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّ١ؕ وَ اِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْئَلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ١ؕ ذٰلِكُمْ اَطْهَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَ قُلُوْبِهِنَّ١ؕ وَ مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰهِ وَ لَاۤ اَنْ تَنْكِحُوْۤا اَزْوَاجَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖۤ اَبَدًا١ؕ اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِیْمًا
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو لَا تَدْخُلُوْا : تم نہ داخل ہو بُيُوْتَ : گھر (جمع) النَّبِيِّ : نبی اِلَّآ : سوائے اَنْ : یہ کہ يُّؤْذَنَ : اجازت دی جائے لَكُمْ : تمہارے لیے اِلٰى : طرف (لیے) طَعَامٍ : کھانا غَيْرَ نٰظِرِيْنَ : نہ راہ تکو اِنٰىهُ ۙ : اس کا پکنا وَلٰكِنْ : اور لیکن اِذَا : جب دُعِيْتُمْ : تمہیں بلایا جائے فَادْخُلُوْا : تو تم داخل ہو فَاِذَا : پھر جب طَعِمْتُمْ : تم کھالو فَانْتَشِرُوْا : تو تم منتشر ہوجایا کرو وَلَا مُسْتَاْنِسِيْنَ : اور نہ جی لگا کر بیٹھے رہو لِحَدِيْثٍ ۭ : باتوں کے لیے اِنَّ : بیشک ذٰلِكُمْ : یہ تمہاری بات كَانَ يُؤْذِي : ایذا دیتی ہے النَّبِيَّ : نبی فَيَسْتَحْيٖ : پس وہ شرماتے ہیں مِنْكُمْ ۡ : تم سے وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يَسْتَحْيٖ : نہیں شرماتا مِنَ الْحَقِّ ۭ : حق (بات) سے وَاِذَا : اور جب سَاَلْتُمُوْهُنَّ : تم ان سے مانگو مَتَاعًا : کوئی شے فَسْئَلُوْهُنَّ : تو ان سے مانگو مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ ۭ : پردہ کے پیچھے سے ذٰلِكُمْ : تمہاری یہ بات اَطْهَرُ : زیادہ پاکیزگی لِقُلُوْبِكُمْ : تمہارے دلوں کے لیے وَقُلُوْبِهِنَّ ۭ : اور ان کے دل وَمَا كَانَ : اور (جائز) نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے اَنْ تُؤْذُوْا : کہ تم ایذا دو رَسُوْلَ اللّٰهِ : اللہ کا رسول وَلَآ : اور نہ اَنْ تَنْكِحُوْٓا : یہ کہ تم نکاح کرو اَزْوَاجَهٗ : اس کی بیبیاں مِنْۢ بَعْدِهٖٓ : ان کے بعد اَبَدًا ۭ : کبھی اِنَّ : بیشک ذٰلِكُمْ : تمہاری یہ بات كَانَ : ہے عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک عَظِيْمًا : بڑا
اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو تم نبی کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو مگر یہ کہ تم کو اجازت دی جایا کرے کسی کھانے (وغیرہ) کی اور وہ بھی اس طرح نہیں کہ تم اسکی تیاری کے انتظار میں لگے رہو لیکن جب تمہیں دعوت دی تو تم حاضر ہوجایا کرو پھر جب کھانا کھا چکو تو تم اٹھ کر چلے جایا کرو اور بیٹھ نہ جایا کرو باتوں میں دل لگا کر بیشک اس سے نبی کو (تکلیف اور) ناگواری ہوتی ہے مگر وہ تمہارا لحاظ کرتے ہیں اور اللہ حق بات کہنے میں لحاظ نہیں کرتا اور جب تمہیں ان (نبی کی بیویوں) سے کوئی چیز مانگنا (یا کچھ پوچھنا) ہو تو تم پردے کے پیچھے سے مانگا (اور پوچھا) کرو اس میں بڑی پاکیزگی ہے تمہارے دلوں کے لئے بھی اور ان کے دلوں کے لئے بھی اور تمہارے لئے نہ تو یہ بات کسی طرح جائز ہے کہ تم اللہ کے رسول کو کوئی تکلیف پہنچاؤ اور نہ ہی یہ کہ تم ان کی بیویوں سے نکاح کرو ان (کی وفات) کے بعد کبھی بھی بلاشبہ یہ اللہ کے نزدیک بھاری گناہ ہے
107 اہل ایمان کیلئے بعض خاص ہدایات وتعلیمات کا ذکر : یہاں سے اہل ایمان کے لئے بعض ان ہدایات کا ذکر فرمایا جا رہا ہے جن کا تعلق نبی (علیہ الصلوۃ والسلام) سے متعلق حقوق و آداب اور اصلاح معاشرہ سے ہے۔ اس آیت کریمہ کو " آیت حجاب " کہا جاتا ہے کہ اس میں پردے کا حکم نازل ہوا ہے۔ صحیحین یعنی صحیح بخاری و مسلم وغیرہ میں حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ۔ ﷺ ۔ نے حضرت زینب بنت حجش ؓ سے عقد نکاح فرمانے کے بعد جب دعوت ولیمہ پکائی تو اس موقع پر کچھ لوگ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد وہیں بیٹھ کر خوش گپیوں میں مشغول ہوگئے، جس سے رسول اللہ ﷺ کو تنگی اور کوفت ہو رہی تھی۔ حضرت زینب دیوار کی طرف منہ کر کے بیٹھی ہوئی تھیں اور حضور بار بار گھر کے اندر باہر تشریف لے جا رہے تھے۔ مگر کمال شرافت اور حسن خلق کی وجہ سے آپ ﷺ ان لوگوں کو کچھ فرماتے نہیں تھے۔ اور آپ ﷺ بعض دوسری ازواج مطہرات کے حجروں میں تشریف لے گئے یہاں تک کہ جب آپ ﷺ کو بتایا گیا کہ وہ لوگ چلے گئے ہیں تو آپ ﷺ گھر میں تشریف لائے۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ حسب عادت میں بھی ساتھ ساتھ گھر میں داخل ہونے لگا تو آپ ﷺ نے میرے اور اپنے درمیان ایک چادر ڈال دی۔ کیونکہ پردے کا حکم نازل ہوچکا تھا۔ واضح رہے کہ یہ ۔ پردے کا حکم ۔ بھی منجملہ ان امور کے ہے جن میں اللہ پاک کی طرف سے حضرت عمر ؓ کی رائے کی تصدیق و تائید میں وحی نازل فرمائی گئی۔ چناچہ صحیح بخاری وغیرہ میں ام المومنین حضرت عائشہ ۔ ؓ ۔ سے مروی ہے کہ حضرت عمر ؓ نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ ﷺ کے پاس اچھے برے ہر طرح کے لوگ آتے ہیں۔ لہذا اگر آپ ﷺ اپنی ازواج مطہرات کو پردے کا حکم فرما دیں تو کیا ہی اچھا ہو۔ اس پر اللہ پاک نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی۔ (ابن جریر، ابن کثیر، قرطبی، صفوہ، خازن اور معارف و صفوہ وغیرہ) ۔ اور ان کو خطاب " الذین آمنو " یعنی " اے ایمان والو " کے ارشاد سے فرمایا گیا جس میں علاوہ دوسرے کئی اہم دروس کے ایک بڑا درس یہ بھی ہے کہ تمہارے ایمان کا تقاضا یہی ہے کہ تم ان ہدایات پر دل و جان سے عمل کرو جو تمہیں اس بارے خاص طور پر دی جا رہی ہیں ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی مایحب ویرید - 108 دوسروں کے آرام و راحت کے احسس کا درس : سو اس ارشاد سے دوسروں کے آرام وراحت کے احساس کے درس کے طور پر کھانے کے لیے لمبی دیر انتظار کی ممانعت فرما دی گئی۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ اجازت ملنے پر گھر میں داخل تو ہوجاؤ لیکن وہ بھی اس طرح نہیں کہ کسی کھانے وغیرہ کی تیاری کے انتظار میں لگے رہو۔ اس کے دو مطلب بنتے ہیں اور وہ دونوں ہی صحیح اور دونوں ہی یہاں مراد ہیں۔ ایک یہ کہ اس انتظار میں رہیں کہ کھانا کا وقت کب آتا ہے تاکہ ہم بن بلائے اس موقع پر پہنچ جائیں۔ جس طرح کہ لالچی اور طفیلی قسم کے لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ بغیر دعوت کے ایسے موقع پر پہنچ جاتے ہیں۔ اور دوسرا مطلب یہ کہ دعوت ملنے پہ بھی کھانے کے تیار ہونے سے پہلے ہی جاکر وہاں بیٹھ گئے۔ سو ایسا مت کرو کہ یہ دونوں باتیں منع ہیں کہ ان میں خست طبع بھی پائی جاتی ہے اور میزبان کے لئے تکلیف بھی۔ لہذا جاؤ تو دعوت ملنے پر جاؤ۔ اس کے بغیر کسی کے لئے بوجھ نہ بنو۔ اور وہ بھی اس وقت جب کہ کھانا تیار ہوچکا ہو الا یہ کہ اگلے کے ساتھ کسی کے ایسے خاص تعلقات ہوں کہ وہ اس سے کوئی تکلیف یا کوفت محسوس نہ کرتا ہو ۔ روی انہم کانو یتحیتون فیدخلون بیت النبی فیجلسون و یتحدثون لیدرک الطَّعام فانزل اللّٰہُ ہٰذہ الآیۃ ۔ (تفسیر المراغی : ج 22 ص 29) ۔ ای غیر منتظرین ادراکہ او وقتہ ۔ (جامع البیان : ج 2 ص 27) ۔ پس نہ تو کسی کے گھر بلا اجازت داخل ہوا کرو اور نہ بن بلائے کسی کے مہمان بنا کرو اور نہ ہی کھانے کی تیاری کے انتظار میں کسی کے یہاں جاکر بیٹھ جایا کرو۔ سو یہ اساس اور بنیاد ہے اس بات کی کہ آپ کے کسی قول و فعل سے کسی کو کوئی تکلیف اور ایذا نہ پہنچے ۔ سبحان اللہ !۔ کیسی عظیم الشان، مقدس اور باریک تعلیمات ہیں جن سے دین حنیف نے دنیا کو نوازا ہے۔ اور آج سے پندرہ سو برس قبل نوازا ہے جبکہ تہ در تہ اندھیرے چاروں طرف پھیلے ہوئے تھے ۔ فالحمدللہ رب العالمین ۔ { ناظرین } کا لفظ یہاں پر " منتظرین " کے معنیٰ میں ہے۔ اور " انی " کے معنیٰ کسی چیز کی تیاری اور پکنے کے وقت کے ہیں۔ 109 حق سے آگہی کے اہم مطالب کا ذکر وبیان : سو حق سے آگہی کے اہم مطلب کو ذکر وبیان کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ " اللہ حق کہنے اور بیان فرمانے سے نہیں شرماتا "۔ یعنی معاملہ چونکہ پیغمبر کی ذات شریفہ سے تعلق رکھتا ہے اس لئے وہ اپنی کمال درجہ کی شرافت کی وجہ سے لحاظ کرتے ہیں اور کچھ فرماتے نہیں۔ مگر اللہ پاک۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ حق کے بیان و اظہار سے شرماتا نہیں اور کسی کے لحاظ سے اس کو ترک نہیں کرتا۔ بہرکیف کسی پر بوجھ نہیں بننا چاہیئے۔ حضرت سلیمٰن بن ارقم سے مروی ہے کہ یہ آیت کریمہ ایسے ہی ثقلاء ۔ بوجھ بننے والوں ۔ کے بارے میں نازل ہوئی۔ اسی لئے اس آیت کریمہ کو " آیۃ الثقلاء " بھی کہا گیا ہے۔ یعنی وہ آیت کریمہ جس میں ایسے ثقلاء کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ اسی لئے ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اس سے طفیلی پن ۔ تطفیل ۔ کی حرمت ثابت ہوتی ہے۔ اور کہا کہ خطیب بغدادی نے ایسے طفیلیوں کی مذمت میں مستقل ایک کتاب لکھی ہے (ابن کثیر، المراغی وغیرہ) ۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ یہ باتیں نبی کیلئے اذیت اور تکلیف کا باعث تھیں مگر وہ اپنی طبعی شرافت اور شرم و حیا کے باعث تم لوگوں کو روکتے ٹوکتے نہیں لیکن اللہ تعالیٰ حق کے اظہار وبیان کے سلسلے میں کسی کا لحاظ نہیں کرتا۔ اس لیے وہ تم لوگوں کو ان ہدایات اور تعلیمات سے نوازتا ہے اور ان تعلیمات میں ہر ایک کے حق کی پوری رعایت رکھی گئی ہے۔ لہذا تم لوگ ان کو صدق دل سے اپناؤ کہ اسی میں بھلا ہے سب کا۔ اور یہی تقاضا ہے تمہارے ایمان و عقیدہ کا کہ اپنے خالق ومالک کے ہر حکم کو صدق دل سے اپناؤ۔ اسی میں تمہارا بھلا ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ۔ وباللہ التوفیق - 110 پردے کا حکم وارشاد : سو ارشاد فرمایا گیا " اور جب تمہیں ان سے کچھ مانگنا یا پوچھنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا اور پوچھا کرو "۔ پردے کے سلسلے میں اور ایک عمدہ، پاکیزہ اور مثالی معاشرے کے قیام کے لئے قرآن پاک کی ان مقدس تعلیمات کے ضمن میں سب سے پہلی پیش بندی تو یہ فرمائی گئی کہ خاتون اسلام کو اگر کسی غیر محرم سے بات کرنے کی ضرورت پڑجائے تو وہ کسی لوچ و لچک کے بغیر صاف اور کھری بات کہا کرے ۔ { فَلَا تَخْضَعْنَ بالْقَوْلِ } ۔ دوسرا ارشاد یہ فرمایا گیا کہ تمہارا اصل مقام گھر ہے۔ بلا ضرورت اس سے باہر نہ نکلو ۔ { وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ } ۔ اور اگر بامر مجبوری و ضرورت نکلنا بھی پڑے تو اپنے اوپر اپنی چادروں کے گھونگھٹ ڈال دیا کرو ۔ { یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنِّ مِنْ جَلابِیْبِہِن } اور پھر مومنوں کو ارشاد فرمایا گیا کہ تمہیں ان سے کچھ پوچھنا یا مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا اور پوچھاکرو ۔ سبحان اللہ !۔ کیسی عمدہ اور پاکیزہ تعلیم ہے جس سے اس کتاب حکیم نے اہل ایمان کو نوازا ہے۔ مگر افسوس کہ آج کا مسلمان اس سے غافل و بےبہرہ اور لاپروا ہے۔ اور وہ اس سے منہ موڑے ہوئے ہے ۔ اِلاّٰ ماشاء اللّٰہ والعیاذ باللّٰہ جل وعلا ۔ اللہ ہمیشہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر قائم رکھے ۔ آمین۔ 111 قلب و نظر کی پاکیزگی کے لیے نہایت عمدہ ہدایت : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " اس میں بڑی پاکیزگی ہے تمہارے دلوں کیلئے بھی اور ان عورتوں کے دلوں کیلئے بھی "۔ یعنی شیطانی وساوس اور شک و ریب سے محفوظ رہنے کا سامان ہے ۔ من وساوس الشیطٰین والشک۔ (جامع البیان : ج 2 ص 172) ۔ سو اس تعلیم و ہدایت کو تم لوگ کوئی معمولی چیز نہ سمجھو بلکہ یہ دلوں کو آفات سے محفوظ رکھنے کیلئے بڑی اہم تعلیم ہے کہ اس کی ہدایت تم کو دلوں کے خالق کی طرف سے دی جا رہی ہے۔ اور وہی بہتر جانتا ہے کہ دلوں کی کمزوریاں کیسی اور کیا ہوتی ہیں اور یہ کہ کن کن مخفی راستوں سے یہ دل برے اثرات قبول کرتے ہیں۔ اور دل ہی وہ چیز ہے جس پر انسان کی تمام اخلاقی صحت کا مدارو انحصار ہے۔ چناچہ نبی اکرم ۔ ﷺ ۔ نے اپنے مشہور ارشاد میں اس کی اس اہمیت کو اس طرح واضح فرمایا ہے ۔ " الا ان فی الجسد لمضغۃ اذا صلحت صلح الجسد کلہ و اذا فسدت فسد الجسد کلہ الا وہی القلب " ۔ یعنی " آگاہ رہو لوگو اس حقیقت سے کہ انسانی جسم کے اندر گوشت کا ایک ایسا اہم ٹکڑا ہے کہ وہ جب ٹھیک ہوتا ہے تو سارا جسم ٹھیک اور وہ اگر بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ گیا۔ آگاہ رہو کہ وہ اہم ٹکڑا انسان کا دل ہے "۔ اس لیے دل کی حفاظت اور اس کو تمام مضر اشیاء سے محفوظ رکھنا اشد ضروری قرار پاتا ہے۔ اور جس نے انسان کے دل کو پیدا فرمایا ہے وہی اس کی کمزوریوں سے پوری طرح واقف و آگاہ ہے اور وہی بہتر جانتا ہے کہ کن کن راستوں سے برائی اس پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔ اس لیے اس نے دل کی حفاظت کا سب سے زیادہ اہتمام فرمایا ہے ۔ اللہ ہمیشہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر ثابت قدم رکھے ۔ آمین۔ 112 رسول کی ایذا رسانی ممنوع و حرام ۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " اور تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم اللہ کے رسول کو کوئی تکلیف پہنچاؤ "۔ خواہ کسی بھی طرح کی ایذا و تکلیف ہو کہ آنحضرت ۔ ﷺ ۔ کو ایذا اور تکلیف پہنچانا ممنوع اور حرام ہے۔ جس کی ایک صورت آپ ﷺ کے صحابہ کرام کو ایذا پہنچانا بھی ہے۔ کیونکہ آپ ﷺ نے خود فرمایا کہ جس نے میرے صحابہ کو ایذا پہنچائی اس نے خود مجھے ایذا پہنچائی ۔ " مَنْ اٰذاہَم فقد اٰذانی " ۔ سو اس سے وہ لوگ سبق لیں اور اپنا انجام خود دیکھ لیں جو حضرات صحابہ کرام ۔ علیھم الرحمۃ والرضوان ۔ کے بارے میں سب وشتم اور طرح طرح کی زبان درازی سے کام لیتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف اس ارشاد ربانی سے تنبیہہ فرما دی گئی کہ پیغمبر کی ایذا کا معاملہ بڑا ہی سنگین اور انتہائی ہولناک ہے۔ اور اس کا نتیجہ و انجام بڑا ہی عبرتناک ہوتا ہے۔ کیونکہ پیغمبر کی ذات اللہ تعالیٰ کی عدالت کا مظہر اور اس کی رحمت یا پھر اس کے عذاب اور اس کی گرفت و پکڑ کا باعث ہوتی ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو پیغمبر کی بعثت و تشریف آوری صرف وعظ سنانے کے لیے نہیں ہوتی بلکہ وہ نیکوں اور بروں کے درمیان تفریق اور ان کے درمیان فیصلہ کیلئے ہوتی ہے۔ سو جو لوگ پیغمبر کی تکذیب کرتے اور انکو ایذا پہنچاتے ہیں وہ آگ سے کھیلتے اور ایک بڑے ہی ہولناک انجام کی طرف بڑھتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ ہمیشہ اپنی حفاظت اور پناہ میں رکھے ۔ آمین ثم آمین۔ 113 پیغمبر کی بیویوں سے نکاح کرنا کسی کے لیے جائز نہیں : سو ارشاد فرمایا گیا " اور نہ ہی تمہارے لیے یہ جائز ہے کہ تم ان کی بیویوں سے نکاح کرو ان کے بعد کبھی بھی "۔ کہ یہ بھی آپ ﷺ کی ایذا رسانی میں داخل ہے۔ نیز اسلئے کہ وہ امت کی اور تمہاری مائیں ہیں۔ تو اپنی ماں سے نکاح کا سوچ بھی کون سکتا ہے ؟ اور ظاہر ہے کہ جس محسن اعظم ۔ صَلَوات اللّٰہ و سَلاَمہ عَلَیہ ۔ کے ہم پر احسانات کی کوئی حد نہیں۔ اس کی ایذ رسانی سے بڑھ کر گناہ اور کون سا ہوسکتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو اس ارشاد سے دراصل ان منافقوں کے چہروں سے نقاب اٹھایا گیا جو کہ اپنے کفر اور اسلام دشمنی کی بنا پر یہ اس طرح کے ارمان اپنے باطن میں رکھتے تھے۔ ورنہ ایک سچا مومن تو ایسا تصور بھی کبھی نہیں کرسکتا۔ سو ایسے منافقوں کو بتایا گیا کہ معاملہ اللہ کے رسول کا ہے۔ اس لیے وہاں کے بارے میں ایسا سوچنا بھی ہولناک انجام کا باعث ہے کہ ان کا درجہ و مقام اہل ایمان کے نزدیک ان کی حقیقی ماؤں سے بھی کہیں بڑھ کر ہے ۔ رضوان اللہ علیہن اجمعین - 114 پیغمبر کی جناب میں سوء ادبی بڑا ہولناک جرم و گناہ ہے ۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا اور کلمات تاکید کی ساتھ ارشاد فرمایا گیا " بلاشبہ یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی بات ہے "۔ پس نبی اکرم اور آپ کی زوجات مطہرات سے متعلق کسی سوء ادبی کا کوئی خیال بھی کبھی دل میں نہ لانا ورنہ مارے جاؤ گے ۔ والعیاذ باللہ العظیم منِْ کُلِّ سُوْئٍ وَّزَیْغٍ وَ ضَلاَلٍ وَّفَسَادٍ ۔ یہاں اس وبال عظیم کی وضاحت نہیں فرمائی گئی کہ وہ کیسا اور کس شکل کا ہوگا۔ سو اس ابہام کے اندر اس کے بارے میں جو تہدید اور ہولناکی پائی جاتی ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ اور مشہور حدیث میں ارشاد فرمایا گیا ۔ وَمَنْ اٰذَانِیْ فَقَدْ اٰذَی اللّٰہَ ۔ یعنی " جس نے مجھے ایذا پہنچائی اس نے اللہ کو ایذا پہنچائی "۔ " اور جس نے اللہ کو ایذاء پہنچائی اس کو اللہ دوزخ میں ڈالے گا " ۔ وَمَنْ اٰذَی اللّٰہَ یُوْشَکُ اَنْ تَاْخُذَہُ ۔ سو پیغمبر کی ایذا دراصل اللہ کو ایذا پہنچانا ہے اور اللہ کو ایذا پہنچانا کا انجام اللہ کی گرفت و پکڑ اور دوزخ کا ہولناک عذاب ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top