Tafseer-e-Madani - Al-Ahzaab : 59
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ١ؕ ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی قُلْ : فرمادیں لِّاَزْوَاجِكَ : اپنی بیبیوں کو وَبَنٰتِكَ : اور بیٹیوں کو وَنِسَآءِ : اور عورتوں کو الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں يُدْنِيْنَ : ڈال لیا کریں عَلَيْهِنَّ : اپنے اوپر مِنْ : سے جَلَابِيْبِهِنَّ ۭ : اپنی چادریں ذٰلِكَ : یہ اَدْنٰٓى : قریب تر اَنْ : کہ يُّعْرَفْنَ : ان کی پہچان ہوجائے فَلَا يُؤْذَيْنَ ۭ : تو انہیں نہ ستایا جائے وَكَانَ اللّٰهُ : اور اللہ ہے غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
اے پیغمبر ! کہو اپنی بیویوں بیٹیوں اور عام مسلمانوں کی عورتوں سے کہ وہ لٹکا دیا کریں اپنے (چہروں کے) اوپر کچھ حصہ اپنی چادروں کا یہ طریقہ اس کے زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچان لی جایا کریں پھر ان کو کوئی ایذاء نہ پہنچنے پائے اور اللہ تو بہرحال بڑا ہی بخشنے والا نہایت مہربان ہے1
124 حجاب سے متعلق بعض خاص ہدایات کا ذکر وبیان : سو اس سے اہل ایمان کی عورتوں کے لیے حجاب اور پردے سے متعلق بعض خاص ہدایات کا ذکر وبیان فرمایا گیا ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا " اے پیغمبر کہو اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہ وہ ان ہدایات کی پابندی کریں "۔ سو اس سے معلوم ہوا کہ حضور ﷺ کی بیٹیاں کئی تھیں۔ کیونکہ یہاں پر جمع کا لفظ " بنات " استعمال فرمایا گیا ہے۔ اور علمائے تاریخ و سیر اس پر متفق ہیں کہ آپ ﷺ کی صاحبزادیاں چار تھیں۔ زینب ؓ ‘ رقیہ ؓ ‘ ام کلثوم ؓ ‘ اور فاطمہ ؓ ۔ اور خود شیعوں کی معتبر کتابوں میں بھی اس کا ثبوت موجود ہے۔ ( جیسا کہ اصول کافی : ج 1 ص 339، حیات القلوب : ج 2 ص 588 طبع طہران وغیرہ میں موجود ہے بحوالہ الجواہر : ج 3 ص 947) ۔ بہرکیف پیغمبر کو ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اپنی بیویوں، بیٹیوں اور عام مسلمان خواتین سے کہو کہ وہ جب کسی ضرورت کیلئے گھر سے باہر نکلیں تو اپنی بڑی چادروں کا کچھ حصہ اپنے چہروں پر ڈال دیا کریں تاکہ اس طرح ان کے اور دوسری غیر مسلم عورتوں اور لونڈیوں کے درمیان امتیاز ہوجائے۔ اور کوئی ان سے تعرض اور چھیڑ خانی نہ کرنے پائے۔ سورة نور میں ارشاد فرمایا گیا تھا یعنی جب انکے اعزا و اقرباء اجازت لینے کے بعد گھروں میں داخل ہوں تو گھر کی خواتین گھر کے اندر سمٹ سمٹا کر رہا کریں۔ اپنی زیب وزینت کی چیزوں کا اظہار نہ کیا کریں اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے بکل مار لیا کریں۔ سو اس ہدایت کا تعلق گھر کے اندر سے ہے جبکہ یہاں ارشاد فرمائی جانے والی اس ہدایت کا تعلق گھر سے باہر نکلنے کی صورت میں ہے کہ ایسی صورت میں مومن خواتین اپنی بڑی چادروں کا کچھ حصہ اپنے اوپر لٹکا لیا کریں۔ یعنی اپنی بڑی چادروں کے گھونگٹ لٹکا لیا کریں۔ اور اس کے دو قرینے پائے جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ یہاں پر ارشاد فرمایا گیا ہے { ذلک ادنی ان یعرفن فلا یؤذین } یعنی " یہ اس کے زیادہ قریب ہے کہ ان عورتوں کو پہچان لیا جائے پھر انکو کوئی ایذا اور تکلیف نہ پہنچنے پائے "۔ اور ظاہر ہے کہ اس کا تعلق گھر سے باہر کی صورت سے ہی ہوسکتا ہے نہ کہ گھر کے اندر سے۔ اور دوسرا قرینہ اس بارے یہاں پر یہ موجود ہے کہ یہاں پر " خمار " نہیں " جلباب " کا لفظ استعمال فرمایا گیا ہے۔ اور لغت میں " جلباب " اس بڑی چادر کو کہتے ہیں جو اوڑھنی کے اوپر لی جاتی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ایسی بڑی چادر کے لینے کی ضرورت گھروں کے اندر نہیں ہوتی بلکہ گھروں سے باہر نکلنے کی صورت میں پیش آتی ہے۔ 125 ایماندار عورتوں کے لیے ایک خاص ہدایت : سو اس سے ایماندار عورتوں کو اپنی چادروں کا کچھ حصہ اپنے چہروں پر ڈال دینے کا حکم وارشاد فرمایا گیا ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ " اپنی بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہیں کہ وہ لٹکا لیا کریں اپنی بڑی چادروں کا کچھ حصہ اپنے چہروں پر "۔ یعنی گھونگھٹ ڈال دیا کریں۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ کے نزول کے بعد مسلمان عورتیں اپنی چادریں اس طرح اپنے چہروں پر لپیٹ کر باہر نکلتی تھیں کہ صرف ایک آنکھ دیکھنے کے لئے کھلی رہتی تھی۔ اور حضرت عبیدہ سلمانی سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ ؓ نے پورا چہرہ ڈھانک کر اور صرف بائیں آنکھ کھلی رکھ کر اس کی عملی تفسیر بتائی ۔ سبحان اللہ !۔ کیسی عظیم الشان تعلیمات ہیں جن سے اسلام نے دنیا کو نوازا ہے۔ مگر کہاں اسلام کی یہ تعلیمات مقدسہ اور خاتون اسلام کی عزت و عظمت اور عصمت و پاکدامنی کی حفاظت کے لئے یہ پابندیاں اور ایسے انتظامات اور کہاں مسلمان کہلانے والی آج کی وہ ماڈرن عورت جو جامے سے باہر اور ننگی ہوگئی ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور صرف ننگی نہیں بلکہ وہ ننگے ہونے کے ایسے نت نئے طور طریقے اپناتی ہے کہ پناہ بخدا۔ اور ایسے نت نیے کہ غیرت سر پیٹ کر رہ جائے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 126 اس طریقہ حجاب کے فائدے کا ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " یہ طریقہ زیادہ قریب ہے اس کے کہ انکو پہچان لیا جائے اور اس کے نتیجے میں ان کو کوئی ایذا نہ پہنچنے پائے "۔ یعنی پہچان لی جایا کریں کہ یہ شریف خاتون ہیں پھر کوئی ان کو چھیڑنے کی جرات نہ کرسکے گا۔ جیسا کہ روایات میں بھی موجود ہے " لِمعرفتہن بالعفَّۃ فَلا یتعرض لہن " (المراغی : ج 2 ص 301) ۔ سو اسلام کی مقدس تعلیمات خاتون اسلام کی عزت و عظمت میں اضافے کا باعث اور اس کو دارین کی سعادت سے سرخروئی سے بہرہ ور و ہمکنار کرنے کا ذریعہ ہیں۔ پس اس قرینے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اس کا تعلق گھر سے باہر نکلنے کی صورت سے ہے جبکہ سورة نور والے ارشاد کا تعلق اندرون خانہ سے ہے۔ جیسا کہ ابھی گزرا۔ اور شرفائے عرب کی خواتین جب کسی ضرورت کے لیے گھر سے باہر نکلا کرتی تھیں تو اس وقت وہ ایسی چادریں اپنے اوپر لے لیا کرتی تھیں۔
Top