Tafseer-e-Madani - Al-Ahzaab : 63
یَسْئَلُكَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَةِ١ؕ قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللّٰهِ١ؕ وَ مَا یُدْرِیْكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُوْنُ قَرِیْبًا
يَسْئَلُكَ : آپ سے سوال کرتے ہیں النَّاسُ : لوگ عَنِ : سے (متعلق) السَّاعَةِ ۭ : قیامت قُلْ : فرمادیں اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں عِلْمُهَا : اس کا علم عِنْدَ اللّٰهِ ۭ : اللہ کے پاس وَمَا : اور کیا يُدْرِيْكَ : تمہیں خبر لَعَلَّ : شاید السَّاعَةَ : قیامت تَكُوْنُ : ہو قَرِيْبًا : قریب
یہ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں (قیامت کی) اس گھڑی کے بارے میں تو کہو کہ اس کا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے اور تمہیں کیا پتہ کہ قریب ہی آلگی ہو وہ گھڑی
130 قیامت ایک اٹل حقیقت : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ کوئی مانے نہ مانے قیامت بہرحال ایک اٹل حقیقت ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ " پوچھتے ہیں یہ لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں "۔ اس سوال سے مقصود ان کا واقعۃً پوچھنا اور جاننا نہیں تھا بلکہ اس سے ان لوگون کا مقصود استعجاب واستبعاد اور وقوع قیامت کی حقیقت کبریٰ کی تکذیب اور اس کا استہزا اور مذاق اڑانا تھا ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو یہ لوگ مذاق اور استہزاء کے طور پر کہتے تھے کہ آخر قیامت آتی کیوں نہیں۔ کب سے اس کے بارے میں سنتے چلے آرہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ بہرکیف اشرار و مفسدین کو جب قیامت کے بارے میں ڈرایا اور خبردار کیا جاتا تو وہ اس کا مذاق اڑاتے کہ ہم نہ جانے کب سے اس طرح کے ڈراوے سن رہے ہیں لیکن قیامت نہ اب تک آئی اور نہ ہی اس نے کبھی آنا ہے بلکہ یہ محض ایک دھونس اور دھمکی ہے جس سے ہم ڈرنے والے نہیں وغیرہ۔ سو عقل کے ایسے اندھوں کو بتایا جا رہا ہے کہ یہ محض ایک دھونس و دھمکی نہیں بلکہ یہ کائنات کی ایک اٹل حقیقت ہے۔ اور محض اس بنا پر اس کا انکار کرنا کہ اس کا صحیح وقت نہیں بتایا جاسکتا نری حماقت ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم - 131 قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " ان سے کہو کہ اسکا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے "۔ کلمہ حصر " اِنَّمَا " کے ساتھ فرمایا گیا کہ قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے۔ اس کے سوا اس کو کوئی نہیں جان سکتا۔ کسی نبی ولی یا فرشتہ کو اس کا علم نہیں ہوسکتا۔ لہذا اللہ کے سوا کسی اور کو عالم غیب جاننا اور ماننا اس طرح کی صریح نصوص کی مخالفت اور ان کے معارضے کے زمرے میں آئے گا جو کہ بڑا ہی سنگین جرم اور انتہائی ہولناک امر ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور حق اور حقیقت بہرحال یہی ہے کہ علم غیب خاصہ خداوندی ہے۔ اور عالم غیب صرف اللہ وحدہ لاشریک ہی ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ بہرکیف قیامت کے وقوع اور اس کے علم کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ جہاں تک قیامت کے آنے اور اس کے وقوع کے علم کا تعلق ہے تو اللہ کے سوا اور کسی کو اس کا پتہ نہ ہے نہ ہوسکتا ہے۔ اس کو اللہ ہی جانتا ہے۔ مجھے بھی اس کے وقوع کے بارے میں کوئی علم نہیں۔ البتہ یہ بات قطعی ہے کہ وہ کائنات کی ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جس نے اپنے وقت مقرر پر بہرحال آ کر اور واقع ہو کر رہنا ہے۔ سو محض اس بنا پر اس کا انکار کرنا کہ اس کا وقت اللہ کے سوا کسی کے علم میں نہیں محض ایک حماقت اور سخت خسارے کا سودا ہے ۔ والعیاذ باللہ - 132 قیامت کے ظہور میں اب زیادہ دیر نہیں : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " تمہیں کیا پتہ کہ شاید قریب ہی آلگی ہو وہ گھڑی جس کا تم لوگ اس طرح مذاق اڑا رہے ہو "۔ پس تم لوگ اس کا وقت پوچھنے کی بجائے اس کے لیے تیاری کرو اور ہر وقت اس کا دھیان رکھو قبل اس سے کہ حیات مستعار اور عمر رواں کی یہ فرصت محدود تمہارے ہاتھ سے نکل جائے کہ پھر اس کے ملنے کی کوئی صورت ممکن نہ ہوگی۔ اور ہر شخص کی انفرادی قیامت تو اس کی اپنی موت ہے جس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا کہ وہ کب کہاں اور کیسے پہنچ جائے۔ جیسا کہ فرمایا گیا " مَنْ مَّاتَ فَقَدْ قَامَتْ قِیَامَتُہٗ " لہذا بےمقصد سوالات پوچھنے کی بجائے آخرت کے لئے کمائی اور سعی و عمل کی ضرورت ہے ۔ وباللہ التوفیق ۔ سو اس ارشاد میں پیغمبر کیلئے تسلی اور قیامت کا مذاق اڑانے والوں کیلئے سخت انذار اور تنبیہ ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور یہ اسلوب بیان کسی چیز کی عظمت، اہمیت اور اس کی ہولناکی کو بیان کرنے کے لیے ہوتا ہے اور اس میں مخالفین کے طنز و استہزاء کا جواب اور اس پر رد بھی ہے کہ تم لوگ اس لاپرواہی سے اس کا مذاق اڑا رہے ہو۔ تمہیں کیا پتہ کہ وہ شاید قریب ہی آ لگی ہو اور آخری پیغمبر کی بعثت و تشریف آوری کے بعد اب آخری مرحلہ وقوع قیامت ہی کا رہ گیا ہے۔
Top