Tafseer-e-Madani - Al-Ahzaab : 69
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْا١ؕ وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو لَا تَكُوْنُوْا : تم نہ ہونا كَالَّذِيْنَ : ان لوگوں کی طرح اٰذَوْا : انہوں نے ستایا مُوْسٰى : موسیٰ فَبَرَّاَهُ : تو بری کردیا اس کو اللّٰهُ : اللہ مِمَّا : اس سے جو قَالُوْا ۭ : انہوں نے کہا وَكَانَ : اور وہ تھے عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک وَجِيْهًا : باآبرو
اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہیں ہوجانا جنہوں نے ایذاء (و تکلیف) پہنچائی موسیٰ کو پھر اللہ نے ان کو بری فرما دیا ان تمام باتوں سے جو ان لوگوں نے (ان کے خلاف) بنائی تھیں اور موسیٰ تو اللہ کے یہاں بڑی آبرو والے تھے
137 ایمان والوں کو آداب پیغمبر کے بارے میں خاص ہدایت : سو اس سے ایمان والوں کو اپنے پیغمبر کی ایذا رسانی سے پرہیز و اجتناب کی تنبیہ و تذکیر فرمائی گئی ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا اور اہل ایمان کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ " ایمان والو، کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہیں ہوجانا جنہوں نے حضرت موسیٰ کو ایذا پہنچائی تھی "۔ کہ تم بھی اپنے پیغمبر کو اسی طرح ستانے لگو جس طرح کہ حضرت موسیٰ کی امت نے ان کو ستایا۔ اور اس طرح تم بھی انہی کی طرح اپنی تباہی کا سامان کرلو ۔ والعیاذ باللہ ۔ روایات میں وارد ہے کہ ایک مرتبہ آنحضرت ۔ ﷺ ۔ مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے تو ایک شخص نے اعتراض کیا کہ یہ تقسیم صحیح نہیں۔ اس میں عدل وانصاف سے کام نہیں لیا گیا۔ تو اس پر آپ ﷺ نے فرمایا ۔ " رَحِمَ اللّٰہُ مُوْسٰی لَقَدْ اُوْذِیَ اَکْثَرَ مِنْ ہٰذَا فَصَبَر " ۔ " اللہ کی رحمتیں ہوں حضرت موسیٰ پر کہ ان کو اس سے بھی زیادہ ستایا گیا مگر انہوں نے صبر ہی سے کام لیا "۔ سو یہاں سے یہ درس بھی ملتا ہے کہ جب اللہ کی ایسی پاکیزہ اور مقدس ہستیاں بھی لوگوں کے طعن وتشنیع اور اعتراضات سے نہیں بچ سکیں تو پھر اور کون ہے جو اس سے بچ سکے ؟ پس اس کی کوشش اور فکر کرنے کی ضرورت نہیں کہ سب لوگ مجھے اچھا کہیں کہ ایسا نہ کبھی ہوا نہ ہوسکتا ہے۔ بلکہ کوشش اس امر کی ہو کہ میرا اپنا راستہ صحیح اور میرا اپنا عمل درست ہو۔ اور یہ کہ میرا معاملہ میرے خالق ومالک سے ہمیشہ درست رہے۔ اس کے بعد کوئی اچھا کہے یا برا اس کی پروا نہیں ہونی چاہیئے ۔ وباللہ التوفیق - 138 قوم موسیٰ کی بدبختی کے ایک نمونے کا ذکر : سو قوم موسیٰ کی طرف سے حضرت موسیٰ کی ایذا رسانی اور اللہ کی طرف سے ان کی براءت کے انتظام کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ " اللہ نے بری فرما دیا انکو لوگوں کی سب باتوں سے "۔ حضرت موسیٰ کو ان کی قوم کی طرف سے طرح طرح سے ستایا گیا۔ " ساحر "، " مجنون " اور " کذاب " وغیرہ کے ان عمومی مطاعن کے علاوہ جن سے سب ہی انبیائے کرام ۔ علیہم الصلوۃ والسلام ۔ کو واسطہ پڑا۔ آپ (علیہ السلام) پر ایک فاحشہ عورت کے ذریعے بھرے مجمع میں تہمت لگوائی گئی۔ آپ (علیہ السلام) پر اپنے بھائی حضرت ہارون کو قتل کرنے تک کا الزام لگایا گیا۔ اور اس نا شکری اور بےانصاف قوم کو جب بھی کوئی آزمائش پیش آئی تو انہوں نے حضرت موسیٰ ہی کو مطعون کیا اور ہر بات کا الزام آپ (علیہ السلام) ہی پر رکھا۔ چناچہ مصر سے نکل کر جب یہ لوگ سمندر کے کنارے پہنچے اور پیچھے سے فرعون بھی اپنے لشکروں سمیت ان کے تعاقب میں وہاں پہنچ گیا تو یہ چیخ پڑے کہ موسیٰ نے ہمیں کہاں مروا دیا۔ اور سب کو اکٹھا کرکے اس طرح موت کے منہ میں دھکیل دیا۔ پھر جب فرعون اپنے لشکر سمیت ان کے سامنے غرقاب ہوا تو حضرت موسیٰ کے ہاتھ پر اتنے بڑے معجزے کے ظاہرہونے کے باوجود اپنی اس بدتمیزی پر کسی افسوس اور معذرت کرنے کی بجائے سمندر سے پار ہوکر صحرائے سینا میں پہنچنے پر انہوں نے کہا کہ موسیٰ کیا مصر میں ہمارے دفن کے لئے قبروں کی جگہ نہیں تھی جو تم نے ہمیں یہاں لا کر اس لق و دق صحرا میں اس طرح مروا دیا ؟ پھر حضرت موسیٰ کی دعا و درخواست پر ان کے لیے قدرت کی طرف سے بادلوں کے سایوں اور پانی کے لئے بارہ چشموں کے پھوٹ نکلنے جیسے کھلے معجزات کو دیکھ لینے کے باوجود جب حضرت موسیٰ تورات لینے کوہ طور پر گئے تو انہوں نے کہا کہ یہ شخص ہمیں اس صحرا میں چھوڑ کر پتہ نہیں کہاں گم ہوگیا۔ تو انہوں نے اپنے زیوارت کا سامری سے ایک بچھڑا بنوایا اور اس کو خدا مان کر اس کی پوجا شروع کردی۔ پھر جب ان کو من وسلویٰ جیسی قدرتی نعمتوں سے نوازا گیا تو انہوں نے کہا کہ ایک ہی طرح کا کھانا کھاتے کھاتے ہم لوگ تنگ آگئے ہیں۔ اور اس سے ہمارے جسم سو کھ گئے ہیں۔ ہمیں وہی مصر والی ساگ، سبزی، کھیرے، ککڑی اور دال روٹی جیسی چیزیں چاہئیں۔ پھر جب حضرت موسیٰ نے ان سے کہا کہ تم جہاد کے لئے نکلو تاکہ عمالقہ سے اپنی سرزمین کو آزاد کرا سکو تو انہوں نے صاف طور پر کہہ دیا کہ ہم ایسا نہیں کرسکتے کہ وہ بڑے سخت اور طاقتور لوگ ہیں۔ اس لئے ہم تو وہاں نہیں جاسکتے بلکہ یہیں بیٹھے رہیں گے۔ تم خود اور تمہارا رب جا کر ان کے ساتھ لڑو وغیرہ وغیرہ۔ اس کے علاوہ انہوں نے حضرت موسیٰ پر جسمانی عیبوں کی تہمت لگا کر آپکوبدنام کیا۔ جیسا کہ صحیح روایات میں وارد ہے۔ مگر اللہ پاک نے اس قسم کے تمام مواقع پر خرق عادت کے طور پر آپ (علیہ السلام) کی براءت کا انتظام فرمایا اور حضرت موسیٰ کو ہر موقع پر سرخرو کرنے کا انتظام فرمایا۔ قرآن پاک نے چونکہ ان مواقع میں سے کسی کی تعیین و تصریح نہیں فرمائی اس لئے " اَبْہِمُوْا مَا اَبْہَمَہُ الْقُرْآنُ " کے اصول کے مطابق ہمیں اس کی تعیین و تخصیص پر زور لگانے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ اس کو اپنے ظاہر اور عموم ہی پر رکھا جائے۔ اور اس طرح یہ سب ہی صورتیں اس ایذارسانی میں داخل ہیں " ولم یعین لنا الکتاب الکریم ما قالوا فی موسیٰ فمن الخیر أن لا نعینہ حتٰی لا یکون ذاک رجما بالغیب " (المراغی، القرطبی، الکبیر، المحاسن للقاسمی وغیرہ) ۔ 139 وجاہت موسوی کا ذکر وبیان : سو اس سے حضرت موسیٰ کی اللہ تعالیٰ کے یہاں وجاہت کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا " اور موسیٰ اللہ تعالیٰ کے یہاں بڑے ہی وجیہ اور آبرومند تھے "۔ اور نہ صرف یہ کہ آپ (علیہ السلام) نبی و رسول تھے اور بس۔ بلکہ اولوا العزم رسول تھے۔ اور جو دعا آپ اللہ سے مانگتے تھے وہ پوری ہوتی تھی۔ (ابن کثیر وغیرہ) اور یہ آپ کی بیمثال وجاہت ہی تھی کہ آپ (علیہ السلام) نے کہ تن تنہا اپنے عصا یعنی عصائے موسوی کے سہارے فرعون جیسے بڑے کافر کو للکارا۔ ڈنکے کی چوٹ اس کے سامنے کلمہ حق بلند کیا اور بالآخر وہ اپنے لاؤ لشکر سمیت غرق قلزم ہوا۔ اور اللہ تعالیٰ کے یہاں آپ (علیہ السلام) کی وجاہت کا ایک اور پہلو یہ تھا کہ آپ (علیہ السلام) کی دعا و درخواست سے حضرت ہارون (علیہ السلام) کو منصب نبوت سے سرفرازی نصیب ہوئی۔ جس کی دوسری کوئی مثال نہیں ملتی۔ نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد۔ سو اللہ پاک نے حضرت موسیٰ کو معاندین و منکرین کی ہر تہمت سے بری فرمایا اور اس طور پر کہ ہر تہمت کے مقابلے میں آپ (علیہ السلام) کی صداقت و سچائی اور نیک نیتی و راست بازی پہلے سے بھی زیادہ نکھر کر سامنے آئی۔ آپ (علیہ السلام) کی صداقت و حقانیت مزید آشکارا ہوئی اور آپ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے یہاں بڑے باوقار، آبرو مند اور سرخرو ٹھہرے۔ اور آپ (علیہ السلام) کی وجاہت دنیا میں بھی چمکی اور آخرت میں بھی روشن ہوگئی۔ سو اس میں بالواسطہ طور پر حضور ﷺ کیلئے بڑی بشارت اور خوشخبری ہے۔ اور آپ (علیہ السلام) کے توسط سے آپکی امت کے ہر داعی حق کیلئے یہ بشارت بھی ہے اور درس بھی کہ جتنا کسی کا معاملہ اپنے خالق ومالک کے ساتھ صحیح اور مستحکم و مضبوط ہوگا اتنا ہی وہ کامیاب اور سرخرو ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اس کی پشت پر رہے گی ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید -
Top