بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Madani - Faatir : 1
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ جَاعِلِ الْمَلٰٓئِكَةِ رُسُلًا اُولِیْۤ اَجْنِحَةٍ مَّثْنٰى وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ١ؕ یَزِیْدُ فِی الْخَلْقِ مَا یَشَآءُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
اَلْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے فَاطِرِ : پیدا کرنے والا السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین جَاعِلِ : بنانے والا الْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتے رُسُلًا : پیغامبر اُولِيْٓ اَجْنِحَةٍ : پروں والے مَّثْنٰى : دو دو وَثُلٰثَ : اور تین تین وَرُبٰعَ ۭ : اور چار چار يَزِيْدُ : زیادہ کردیتا ہے فِي الْخَلْقِ : پیدائش میں مَا يَشَآءُ ۭ : جو وہ چاہے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے قَدِيْرٌ : قدرت رکھنے والا ہے
ہر خوبی (اور تعریف) اللہ ہی کے لئے ہے جو (عدم محض سے) بنا نکالنے والا ہے آسمانوں اور زمین (کی اس عظیم الشان کائنات) کو جو پیغام رساں بنانے والا ہے ایسے فرشتوں کو جو دو دو تین تین اور چار چار پروں والے ہیں وہ اضافہ فرماتا ہے اپنی مخلوق میں جو چاہتا ہے بلاشبہ اللہ کو ہر چیز پر پوری پوری قدرت ہے
1 سب تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کیلئے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " سب تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہیں جو فاطر ہے آسمانوں اور زمین کا "۔ یعنی انکو بغیر کسی نمونے اور مثال کے پیدا کرنے والا ہے ۔ " اَیْ مُبْدِع " ۔ (جامع البیان، المراغی، الصفوۃ، المعالم وغیرہ) ۔ حضرت ابن عباس ۔ ؓ ۔ کہتے ہیں کہ مجھے " اِبْداَع " کے معنیٰ پوری طرح اس وقت سمجھ آئے جب کہ میں نے دو اعرابی بدؤوں کو آپس میں ایک کنوئیں کے بارے میں لڑتے دیکھا جن میں سے ایک کہہ رہا تھا " اَنَا اَبْدَعْتُہُ " یعنی یہ کنواں میرا ہے کہ اس کو سب سے پہلے میں نے بنایا تھا (ابن کثیر، مدارک، وغیرہ) ۔ سو جب اللہ پاک کے اس فعل خلق و ابداع میں کوئی اس کا شریک نہیں، تو پھر اس کی عبادت و بندگی میں کوئی اس کا شریک کیسے اور کیونکر ہوسکتا ہے ؟ نیز آسمانوں اور زمین کی یہ عظیم الشان اور حکمتوں بھری کائنات اپنی زبان حال سے پکار پکار کر اس کی بےمثال عظمت شان کا پتہ دے رہی ہے اور تقاضا کر رہی ہے کہ ہر قسم کی حمد و ثنا اور ہر طرح کے شکر کا مستحق و سزاوار وہی وحدہ لاشریک ہے۔ سو دین حنیف کی اساس و بنیاد توحید خداوندی ہے اور توحید کی حقیقت شکر خداوندی۔ پس دل و جان سے بھی اور زبان وبیان سے بھی اسی وحدہ لاشریک کا شکر بجا لایا جائے اور عمل و ارکان سے بھی اور ہر قسم کی عبادت و بندگی کا حقدار بھی اسی وحدہ لاشریک کو مانا جائے ۔ سبحانہ وتعالیٰ - 2 فرشتوں کا کام پیغام رسانی اور بس : سو ارشاد فرمایا گیا " جو فرشتوں کو پیغام رساں بنانے والا ہے " جو اللہ پاک کے پیغامات اس کے رسولوں تک پہنچاتے ہیں۔ اور اللہ پاک کی طرف سے دئیے گئے احکام و فرامین کو بجا لاتے ہیں۔ اور وہ اپنے خالق ومالک کے ہر حکم و ارشاد کے ایسے پابند ہیں کہ کبھی اور کسی طرح کی کوئی خلاف ورزی نہیں کرسکتے۔ سو بڑے ہی بہکے اور بھٹکے ہوئے ہیں وہ لوگ جو ان نوری فرشتوں کو دیویاں اور دیوتا قرار دے کر ان کو پوجتے پکارتے اور شرک کے سنگین جرم میں مبتلا ہوتے ہیں۔ جیسا کہ مشرکین نے مختلف صورتوں میں ایسا کیا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو فرشتے خداوند قدوس کی خدائی میں کسی بھی طرح شریک نہیں بلکہ اس کی مخلوق اور اس کے حکم کے پابند ہیں۔ ان کا کام اپنے رب کی اطاعت و فرمانبرداری اور اس کی تسبیح و تقدیس ہے اور ان میں سے ہر ایک کی ایک حد ہے جس سے وہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر اس کی اس طرح تصریح فرمائی گئی ہے ۔ { وَمَا مِنَّا الاَّ لَہُ مَقَامٌ مَّعْلُوْمٌ } ۔ (الصافات : 124) ۔ سو فرشتوں کا کام صرف پیغام رسانی ہے۔ 3 فرشتوں کی قوتیں اور صلاحیتیں مختلف : سو ارشاد فرمایا گیا " جو دو دو، تین تین اور چار چار پروں والے ہیں "۔ فرشتوں کے پروں کا یہ معاملہ ان متشابہات میں سے ہے جن کا اصل اور حقیقی علم اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کو نہیں ہوسکتا۔ یہاں پر ان کے ان پروں کے ذکر سے دراصل اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ وہ سب ایک ہی درجے کے نہیں بلکہ قدرت نے ان کو مختلف درجوں پر اور مختلف قوتوں اور صلاحیتوں کے ساتھ پیدا فرمایا ہے۔ سو ان کی قوتیں مختلف ہیں۔ کسی کی دو پروں کے برابر، کسی کی تین اور کسی کی چار اور کسی کی اس سے بھی زیادہ۔ ان کی اپنی اپنی ذمہ داریوں اور فرائضِ منصبی کے اعتبار سے جس کو جو قوت درکار تھی حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ نے اس کو اسی قوت سے نوازا۔ سو جس طرح اس عالم مادی میں پر کسی پرندے کی پرواز کے معاون اور اس کے لئے ضروری ہوتے ہیں، اسی طرح اس عالم غیب میں فرشتوں کو ایسے پروں اور ایسی عظیم الشان قوتوں سے نوازا گیا ہے جو ان کے لئے وہاں ضروری ہیں۔ اور ان کی ان قوتوں کی تعبیر و اداء کے لئے اس عالم مشاہدہ میں سب سے زیادہ قریب تر اور مناسب چیز پر ہی ہوسکتے ہیں جو کہ اڑان اور سرعت سیر کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ اس لئے اس کی تعبیر کے لئے " اَجْنِحَۃٍ " کا لفظ ہی زیادہ مناسب اور موزوں تھا۔ اس لیے اسی کو اختیار فرمایا گیا ہے ورنہ ان کو پوری طرح دنیاوی پرندوں کے پروں پر منطبق کرنا درست نہ ہوگا۔ اور خود دو دو اور تین تین اور چار چار کا ارشاد اس سے اباء کرتا ہے کہ دنیا میں ایسے پرندے عام طور پر پائے ہی کہاں جاتے ہیں جن کے پر صرف دو دو، تین تین اور چار چار ہوں۔ اور ایسے غیبی حقائق کے سلسلہ میں جیسا کہ ہم نے ابھی اوپر بھی ذکر کیا ہے اور جیسا کہ حضرات اسلاف کرام کا طریقہ ہے سلامتی کی راہ یہی ہے کہ جو کچھ حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ نے فرمایا اور بتایا ہے اس کو ویسے ہی مانا اور تسلیم کیا جائے اور بس۔ غیبی حقائق کی اصل شکل کیا ہے اس کے جاننے کے نہ تو ہم مکلف و ذمہ دار ہیں اور نہ ہی یہ ہمارے بس اور اختیار میں ہے۔ (ابن کثیر، مراغی، و جیز اور معارف وغیرہ) ۔ بہرکیف فرشتوں کو قدرت نے مختلف قوتوں اور صلاحیتوں والا بنایا ہے۔ 4 سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ قدرت واختیار میں ہے : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ صفات اور صلاحیتوں کی کمی بیشی اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ " وہ اپنی مخلوق میں جو اضافہ چاہتا ہے فرماتا ہے "۔ پس وہ طرح طرح کی اور بیشمار ایسی مخلوق پیدا فرماتا رہتا ہے جو ہمارے حیطہ علم و ادراک سے بھی باہر ہے۔ نیز وہ اپنی مخلوق کی خلق و ساخت میں بھی جو چاہے اضافہ فرماتا رہتا ہے۔ اس لئے فرشتوں کے پر کوئی دو دو، تین تین اور چار چار ہی میں منحصر نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ بھی ہوسکتے ہیں۔ اور واقعتہً ہیں۔ چناچہ صحیح احادیث میں مروی ہے کہ آنحضرت ۔ ﷺ ۔ نے جب حضرت جبریل امین کو ان کی اصل شکل میں دیکھا تو ان کے چھ سو پر تھے۔ (بخاری، کتاب بدء الخلق، عن ابن مسعود ؓ ، و صحیح مسلم وغیرہ) ۔ سو یہاں پر فرشتوں کے پروں کے بارے میں چار چار تک کا جو ذکر فرمایا گیا تو اس سے مقصود انکے پروں کی تحدید نہیں بلکہ اس سے مقصود انکے مراتب و منازل کے تفاوت و اختلاف کی طرف اشارہ کرنا ہے۔ سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ جن نادانوں نے فرشتوں کو الوہیت کے زمرے میں داخل کیا ہے انکو خداوند قدوس کی عظمت شان کا احساس اور اس کا اندازہ نہیں۔ فرشتوں کا خدا کی خدائی میں شریک ہونا تو درکنار، انکے قاصد اور سفیر ہونے میں بھی ان کا درجہ و مرتبہ یکساں نہیں۔ بلکہ ان میں سے کسی کی رسائی کسی منزل تک ہے اور کسی کی کسی تک۔ جیسا کہ اوپر گزرا۔ 5 اللہ تعالیٰ کے کمال قدرت کا حوالہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " بیشک اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے " وہ جو چاہے اور جیسا چاہے کرے۔ اس کی قدرت لا محدود ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ پس کبھی یہ خیال نہ کرنا کہ وہ اپنا کام چلانے کے لئے کہیں ان فرشتوں کا محتاج ہے۔ ہرگز نہیں۔ یہ تو اس کی دوسری بیشمار حکمتوں پر مبنی ہے جن کو وہی جان سکتا ہے بلکہ وہ قادر مطلق جو چاہے اور جب چاہے اور جیسا چاہے کرتا ہے اور کرسکتا ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو اس نے اگر فرشتوں کو اپنی پیغامبری کیلئے پیدا فرمایا ہے تو یہ بھی اس کی قدرت و حکمت ہی کا تقاضا ہے۔ اور ان کے درجات و مراتب میں فرق و تفاوت رکھا ہے تو یہ بھی اسی وحدہ لاشریک کی قدرت و حکمت کا ایک مظہر ہے۔ اور وہ اگر اپنی مخلوق میں اور اس کی صلاحیتوں میں کوئی اضافہ کرنا چاہے تو وہ اس پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ وہ جو چاہے اور جیسا چاہے کرسکتا ہے کہ اس کی شان ہے ۔ " علی کل شئی قدیر " اور اس کی قدرت لا محدود ہے۔ اس کے لیے نہ کچھ مشکل ہے اور نہ ہی کوئی چیز اس کے حیطہ قدرت واختیار سے باہر ہوسکتی ہے ۔ سبحانہ وتعالی -
Top