Tafseer-e-Madani - Faatir : 22
وَ مَا یَسْتَوِی الْاَحْیَآءُ وَ لَا الْاَمْوَاتُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآءُ١ۚ وَ مَاۤ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ
وَمَا يَسْتَوِي : اور نہیں برابر الْاَحْيَآءُ : زندے وَلَا : اور نہ الْاَمْوَاتُ ۭ : مردے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يُسْمِعُ : سنا دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ ۚ : جس کو وہ چاہتا ہے وَمَآ اَنْتَ : اور تم نہیں بِمُسْمِعٍ : سنانے والے مَّنْ : جو فِي الْقُبُوْرِ : قبروں میں
اور نہ ہی برابر ہوسکتے ہیں زندے اور مردے بلاشبہ اللہ سناتا ہے جسے چاہتا ہے اور آپ (اے پیغمبر ! ) ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں (پڑے) ہیں1
54 مومن زندہ اور کافر و مشرک مردہ : سو ارشاد فرمایا گیا " اور نہ ہی زندے اور مردے آپس میں برابر ہوسکتے ہیں "۔ یہ اس تمثیل و توضیح میں مزید ترقی ہے کہ یہ لوگ صرف اندھوں ہی کی طرح نہیں بلکہ یہ تو مردے ہیں۔ کیونکہ اندھوں میں تو ان کے اندھے پن کے باوجود افادہ و استفادہ کی قوت و صلاحیت موجود ہوتی ہے بخلاف مردوں کے کہ ان میں کسی افادہ و استفادہ کی کوئی صلاحیت ہی سرے سے نہیں ہوتی۔ پس یہ کفار و مشرکین دراصل مردہ ہیں۔ ان کے ضمیر مرچکے ہیں اور ان کے سینے ان کے ان مردہ ضمیروں کے لئے مدفن اور قبرستان بن چکے ہیں۔ پس نہ تو ان سے خیر کی کوئی توقع رکھو اور نہ ان کے سلوک و کردار سے دل گرفتہ ہوؤ کہ یہ اگرچہ اپنی دو ٹانگوں پر چلتے پھرتے نظر آتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ مردے ہیں کہ ان کے اندر احساس و شعور اور علم و ادراک کے قویٰ مرچکے ہیں جس کے نتیجے میں یہ لوگ اپنے نفع و نقصان اور نتیجہ و انجام کے فہم و ادراک اور صحیح و غلط کے درمیان فرق وتمیز کی اہلیت اور صلاحیت ہی سے محروم ہوگئے۔ اور محض چلتے پھرتے مردے بن کر رہ گئے بلکہ ان کا حال قبروں میں پڑے مردوں سے بھی کہیں بدتر ہے کیونکہ قبروں میں پڑے ہوئے مردے اگرچہ افادہ واستفادہ کی اہلیت سے محروم ہیں لیکن وہ نہ کسی کو دکھ دیتے ہیں اور نہ کسی کا کچھ نقصان کرتے ہیں۔ جبکہ زندوں کی شکل میں چلنے پھرنے والے یہ مردے دنیا جہاں کے لیے عذاب بنے ہوئے ہیں۔ یہ دنیا کو نور حق و ہدایت سے محروم کرنے کی سعی نامراد میں مشغول ہیں اور حق والوں پر طرح طرح کی مظالم ڈھاتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ جعل اللہ کیدہم فی نحورہم واعاذ الاسلام والمسلمین من شرورہم وہو علی کل شیء قدیر ۔ سبحانہ وتعالیٰ - 55 مردوں کو سنانا پیغمبر کا کام نہیں : سو ارشاد فرمایا گیا " اور آپ ۔ اے پیغمبر !۔ انکو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں پڑے ہیں "۔ یعنی ان ہٹ دھرم کفار و مشرکین کا حال تو ان مردوں کا سا ہے جو قبروں میں پڑے ہیں۔ جیسے آپ ﷺ ان قبروں کے مردوں کو نہیں سنا سکتے اسی طرح ان ضمیر کے مردوں کو سنانا بھی آپ ﷺ کے بس میں نہیں ہوسکتا۔ ہاں اللہ پاک جس کو سنانا چاہے سنا سکتا ہے۔ کیونکہ اس کی شان ہے ۔ { عَلیٰ کُلِّ شَیئِ قَدِیر } ۔ " اس کو ہر چیز پر پوری قدرت ہے "۔ معلوم ہوا کہ مردے نہیں سنتے ورنہ اس تشبیہ کا کوئی معنیٰ ہی نہیں رہے گا۔ باقی جہاں جہاں روایات میں مردوں کے سننے کا ذکر پایا جاتا ہے وہ بتقدیر صحت اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی حکمت و مشیت پر محمول ہے۔ وہ جس کو چاہے اور جب اور جیسے چاہے سنائے۔ وہ سب ۔ { اِنَّ اللّٰہَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآئُ } ۔ میں داخل ہے۔ اس پر آگے قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورة نمل اور سورة روم جہاں اسی طرح کی آیات کریمہ کے تحت اس مسئلے پر قدرے تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے ۔ والحمدللہ ۔ بہرکیف اگر مردے سنتے ہوں تو پھر ان مشرکوں کو مردوں سے اور قبروں میں پڑے ہوئے مردوں سے تشبیہ کا کوئی فائدہ ہی نہیں رہ جاتا۔ اس لیے حضرات مفسرین کرام اس کو اس طرح بیان فرماتے ہیں ۔ " ای لا تسمع من مات فکذلک لا تسمع من مات قلبہ " ۔ (القرطبی : ج 14 صفحہ 340) ۔ " شبہ الکفار بالموتی حیث لا ینتفعون بمسموعہم " ۔ (مدارک التنزیل : جلد 3 صفحہ 1423 طبع دار القلم بیروت ) ۔ یعنی جس طرح مردوں کو سنانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح کفر و شرک کے مارے ان چلتے پھرتے مردوں کو سنانے سے بھی کوئی فائدہ نہیں۔ (ابن کثیر، محاسن التاویل، تفسیر ابن الجوزی، المراغی، الفتح اور الجامع وغیرہ) ۔ سو مردوں کو سنانا اور حق کی بات ان کے دلوں تک پہنچادینا پیغمبر کا کام نہیں۔
Top