Tafseer-e-Madani - Faatir : 32
ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا١ۚ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ١ۚ وَ مِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ١ۚ وَ مِنْهُمْ سَابِقٌۢ بِالْخَیْرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ ذٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِیْرُؕ
ثُمَّ : پھر اَوْرَثْنَا : ہم نے وارث بنایا الْكِتٰبَ : کتاب الَّذِيْنَ : وہ جنہیں اصْطَفَيْنَا : ہم نے چنا مِنْ : سے۔ کو عِبَادِنَا ۚ : اپنے بندے فَمِنْهُمْ : پس ان سے (کوئی) ظَالِمٌ : ظلم کرنے والا لِّنَفْسِهٖ ۚ : اپنی جان پر وَمِنْهُمْ : اور ان سے (کوئی) مُّقْتَصِدٌ ۚ : میانہ رو وَمِنْهُمْ : اور ان سے (کوئی) سَابِقٌۢ : سبقت لے جانے والا بِالْخَيْرٰتِ : نیکیوں میں بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ : حکم سے اللہ کے ذٰلِكَ : یہ هُوَ : وہ (یہی) الْفَضْلُ : فضل الْكَبِيْرُ : بڑا
پھر ہم نے اپنی اس کتاب کا وارث بنادیا ان لوگوں کو جن کو ہم نے چن لیا تھا (اس شرف کیلئے) اپنے بندوں میں سے پھر ان میں سے کوئی تو ظلم ڈھانے والا ہے خود اپنی جان پر کوئی میانہ رو ہے اور کوئی سبقت لیجانے والا ہے نیکیوں میں اس کے اذن (و عنایت) سے یہی ہے بڑا فضل
74 مخلوق کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ کے انتظام کا ذکر : سو مخلوق کی ہدایت و راہنمائی کے لیے خداوند قدوس کے انتظام کے ذکر کے سلسلے میں ارشاد فرمایا گیا " پھر ہم نے اپنی اس کتاب کا وارث بنادیا اپنے چنے ہوئے بندوں کو "۔ یعنی اس سے پہلے کتاب ہدایت کے حامل ہونے کا شرف و اعزاز ایک عرصہ دراز تک بنی اسرائیل کو حاصل رہا، مگر جب انہوں نے اس کا حق ادا کرنے میں تقصیر و کوتاہی سے کام لیا اور وہ نااہل قرار پائے تو ہم نے ان سے یہ اعزاز چھین کر بنی اسماعیل کو دے دیا اور اپنی آخری کتاب ہم نے آپ ﷺ کی طرف اتاری۔ پھر یہ کتاب حق جو ہم نے آپ کو بذریعہ وحی عنایت فرمائی آپ ﷺ کے بعد اس کا وارث ہم نے اپنے چنے ہوئے بندوں کو بنادیا ہے۔ یعنی امت محمدیہ کو جو کہ خیر الامم ہے۔ اور اس شرف و اعزاز کو تا قیامت ہمیشہ کے لئے انہی کے اندر رکھ دیا۔ اسی وجہ سے یہود ان پر حسد کرنے لگے اور وہ ان کے دشمن ہوگئے۔ یہاں تک کہ انہوں نے اسی حسد کی بنا پر جانتے بوجھتے اس حق کا انکار کردیا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { وَدَّ کَثِیْرٌ مِّنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَکُمْ مِّنْ بَعْدِ اِیْمَانِکُمْ کُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِہِمْ مِّنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الْحَقُّ } ۔ (البقرۃ : 109) ۔ حالانکہ یہ فیصلہ اللہ کا فیصلہ ہے جس پر کسی کو اعتراض کرنے کا کوئی حق ہی نہیں پہنچتا کہ وہ خالق ومالک بھی ہے اور اس کا ہر فیصلہ ہر اعتبار سے حق و انصاف پر مبنی ہوتا ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اسی لئے ایک اور مقام پر اس بارے میں ارشاد فرمایا گیا ۔ { اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاس علیٰ مَا اٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہ } ۔ (النساء : 54) ۔ یعنی کیا یہ یہود وغیرہ ان لوگوں پر حسد کرتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے نواز دیا ؟ سو ان کا ایسا کرنا عقل و نقل سب کے تقاضوں کے خلاف اور خود ان کی اپنی محرومی میں اضافے کا باعث ہے ۔ والعیاذ باللہ جل وعلا ۔ 75 حاملین کتاب کے تین گروہوں کا ذکر : اللہ تعالیٰ نے تو ان کی ہدایت و راہنمائی کے لیے یہ انتظام فرمایا مگر آگے یہ لوگ تین حصوں میں بٹ گیے۔ یعنی کچھ تو وہ ہیں جنہوں اس کتاب کے بارے میں تقصیر و کوتاہی سے کام لیا اور اس طرح وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ٹھہرے۔ اور کچھ وہ ہیں جو متوسط اور میانہ رو ہیں کہ اکثر اوقات تو اس کے مطابق عمل کرتے ہیں لیکن بعض اوقات کوتاہی بھی کر جاتے ہیں ۔ " یعمل بہ فی غالب الاوقات و یقصر فی بعض الفترات " ۔ (صفوۃ، روح اور قرطبی وغیرہ) ۔ اور کچھ اللہ پاک کی توفیق و عنایت سے نیکیوں میں سبقت لے جانے والے ہیں۔ پس " ظالم " تو ہے گناہ گار اور " سابق " پرہیزگار اور " مقتصد " ان دونوں کے درمیان۔ اور حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ جس کی نیکیاں اس کی برائیوں پر زیادہ اور غالب ہوں وہ تو ہے " سابق " اور جس کی برائیاں زیادہ ہوں وہ ہے " ظالم "۔ اور جس کی نیکیاں اور برائیاں دونوں مساوی و برابر ہوں وہ ہے " مقتصد "۔ اور یہ سب جنت میں داخل ہوں گے۔ اور قول راحج یہی ہے کہ ان تینوں گروہوں کا تعلق امت محمدیہ ہی سے ہے۔ اسی کو ابن جریر طبری نے اختیار فرمایا ہے اور اسی کو جمہور علماء و مفسرین نے راحج قرار دیا ہے۔ اور علامہ ابن کثیر نے اس کی تائید و ترجیح میں مختلف روایات اور آثار کو بھی جمع فرمایا ہے۔ اور اسی کی تائید بلکہ تصریح حضرت اسامہ بن زید ؓ کی اس روایت میں بھی موجود ہے جس کو طبرانی، اور بہیقی وغیرہ نے بیان کیا ہے۔ جس میں فرمایا گیا ہے کہ یہ تینوں قسم کے لوگ اسی امت کے ہوں گے۔ اور تینوں جنت میں داخل ہوں گے ۔ " کلہم من ہذہ الامہ وکلہم فی الجنۃ " ۔ (فتح القدیر، ابن کثیر، ابن جریر، قرطبی، صفوۃ اور مراغی وغیرہ) ۔ جبکہ بعض اہل علم کے نزدیک یہاں پر " ظالم " سے مراد وہ لوگ ہیں جو اس کتاب حق سے خود بھی رکتے ہیں اور دوسروں کو بھی روکتے ہیں جیسا کہ سورة نساء کی آیت نمبر 55 میں ارشاد فرمایا گیا۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جنکا ذکر سورة واقعہ میں " اَصحاب المشئمۃ " سے فرمایا گیا ہے۔ اور یہی قول بعض روایات کے مطابق حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت مجاہد سے بھی مروی ہے۔ (ابن جریر، ابن کثیر وغیرہ) ۔ اور " مقتصد " سے مراد ان حضرات اہل علم کے نزدیک وہ لوگ ہیں کہ جو دعوت حق کی مخالفت تو نہیں کرتے لیکن وہ آگے بڑھ کر اس کی حمایت کا حوصلہ بھی نہیں رکھتے۔ اور " سابق بالخیرات " سے مراد ان حضرات کے نزدیک وہ لوگ ہیں جو دعوت حق کی خاطر ہر مشکل برداشت کرتے اور اس کیلئے ہر قربانی دینے کو مستعد اور تیار رہتے ہیں۔ سو ان حضرات کے نزدیک اس آیت کریمہ کا مصداق صرف امت اجابت نہیں بلکہ پوری امت دعوت ہے ۔ والعلم عنداللہ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اللہ ہمیشہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر مستقیم وثابت قدم رکھے ۔ آمین ثم آمین۔ 76 " سابقون بالخیرات " کے مرتبہ بلند کا ذکر وبیان : سو " سابقون بالخیرات " کو حاصل ہونے والے مرتبہ بلند کے ذکر وبیان کے سلسلے میں ارشاد فرمایا گیا " اور یہی ہے وہ بڑا فضل " یعنی اس کو اپنا مقصد اور نصب العین بنانا چاہیے۔ واضح رہے کہ " ذالک " کا اشارہ " سبق " ۔ پیش قدمی ۔ کی طرف بھی ہوسکتا ہے جو کہ " سابق " کے ضمن میں پایا جاتا ہے۔ اور توریث و ایراث کی طرف بھی جو کہ " اور ثنا " سے مفہوم ہوتا ہے۔ اور بلاشبہ ان میں سے ہر صورت میں اللہ پاک کا بڑا فضل ہے۔ (الجامع، الصفوۃ، المراغی، المعارف وغیرہ) ۔ سو امت محمدیہ ۔ علی صاحبہا الصلوۃ والسلام ۔ کو نعمت قرآن سے نواز کر اور ان کو قیامت تک ہدایت و پیشوائی کے شرف سے مشرف فرما کر ان پر جو فضل و احسان فرمایا گیا ہے وہ یقیناً بہت بڑا فضل و شرف ہے جس سے حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ نے محض اپنے کرم و احسان سے اس امت کو نوازا ہے ۔ والحمد للہ رب العالمین ۔ اور اس نعمت کو اپنانے کیلئے سبقت سے کام لینا بھی بلاشبہ بڑی سعادت اور عظیم الشان فضل خداوندی ہے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید -
Top