Tafseer-e-Madani - Yaseen : 69
وَ مَا عَلَّمْنٰهُ الشِّعْرَ وَ مَا یَنْۢبَغِیْ لَهٗ١ؕ اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ وَّ قُرْاٰنٌ مُّبِیْنٌۙ
وَمَا عَلَّمْنٰهُ : اور ہم نے نہیں سکاھیا اس کو الشِّعْرَ : شعر وَمَا يَنْۢبَغِيْ : اور نہیں شایان لَهٗ ۭ : اس کے لیے اِنْ : نہیں هُوَ : وہ (یہ) اِلَّا : مگر ذِكْرٌ : نصیحت وَّقُرْاٰنٌ مُّبِيْنٌ : اور قرآن واضح
اور ہم نے پیغمبر کو نہ تو شاعری سکھائی اور نہ ہی یہ آپ کی شان کے لائق تھی2 یہ (کلام جو آپ سنا رہے ہیں) اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ ایک عظیم الشان نصیحت (و یاد دہانی) اور کھول کر بیان کرنے والا قرآن ہے (حق اور حقیقت کو)
69 پیغمبر کو شاعری نہیں سکھائی گئی : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ پیغمبر کو نہ شاعری سکھائی گئی اور نہ ہی یہ ان کی شان کے لائق ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا " اور ہم نے نہ تو پیغمبر کو شاعری سکھائی اور نہ ہی یہ اس کی شان کے لائق ہوسکتی ہے "۔ کیونکہ شاعری میں تو تصنع، مبالغہ آمیزی، خیال آرائی، تفاخر و تعلّی اور تک بندی جیسی چیزیں ہوتی ہیں۔ اور اس میں یہ چیزیں جس قدر زیادہ ہوں گی اسی قدر شعر کی قدر و قیمت بڑھے گی اور زیادہ ہوگی۔ چناچہ شعر کے بارے میں مشہور ہے کہ " اَکْذَبُہ اَحْسَنُہ " کہ اس میں جتنا زیادہ جھوٹ اور مبالغہ ہوگا اتنا ہی وہ اچھا سمجھا جائے گا۔ جبکہ پیغمبر تو وہ حقائق بیان فرماتے ہیں جو " دو دونے چار " کی طرح سچے اور کھرے ہوتے ہیں۔ تو پھر صنعت شعر آپ ﷺ کی شان کے مناسب اور لائق کس طرح ہوسکتی ہے ؟ اسی لئے آپ ﷺ نے زندگی بھر کبھی کوئی شعر نہیں کہا۔ اور اگر کبھی کسی دوسرے کا کوئی شعر پڑھا بھی تو اسے سیدھا نہ پڑھا۔ صحابہ کرام کے توجہ دلانے پر آپ ﷺ فرماتے کہ مجھے اس سے کیا لگے۔ میں نہ تو شاعر ہوں، نہ ہی شعر گوئی میرے لائق و مناسب ہے۔ اور علمائے سلف کا اس پر اجماع و اتفاق ہے کہ آنحضرت ۔ ﷺ ۔ نے زندگی بھر کبھی کوئی شعر نہیں کہا۔ اور اگر کبھی کوئی مقفیٰ و موزون کلام آپ ﷺ کی زبان مبارک پر جاری ہوا بھی ہو تو اس کے بارے علمائے کرام کا موقف یہ ہے کہ وہ شعر نہیں تھا۔ کیونکہ اسے آپ ﷺ نے شعر کے ارادے سے نہیں فرمایا۔ اس طرح یہ آیت کریمہ بھی اس بات کے قطعی دلائل میں سے ایک ہے کہ پیغمبر (علیہ الصلوۃ والسلام) عالم غیب نہ تھے، جیسا کہ اہل بدعت کا کہنا اور ماننا ہے۔ اہل بدعت کے شرکیہ عقیدے پر جب اس حجت قطعی کی چوٹ پڑی تو انہوں نے اس کے جواب میں طرح طرح کے پیچ و تاب کھائے اور ان کے ایک بڑے تحریف پسند نے کہا کہ یہاں آپ سے شعر گوئی کی نفی نہیں بلکہ اس کے ملکہ کی نفی ہے ۔ سبحان اللہ !۔ کیا کہنے اس فکر و دانش کے کہ اللہ پاک تو فرمائے کہ " نہ تو ہم نے آپ ﷺ کو شعر کہنا سکھایا اور نہ ہی یہ آپ ﷺ کے مناسب اور آپ ﷺ کی شان کے لائق ہے " لیکن یہ حضرت اس کے علی الرغم اگر مگر کے چکر دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ حالانکہ یہاں پر نفی نفس شعر کی ہے نہ کہ اس کے ملکہ کی۔ اور شعر سے ملکہ شعر مراد لینے کا یہاں پر نہ کوئی قرینہ موجود ہے نہ دلیل۔ اور اگر علی سبیل الفرض اس کو اگر تسلیم بھی کرلیا جائے تو مَا کَانَ وَمَا یَکُوْنُ کے جس علم کا دعویٰ یہ لوگ کرتے ہیں اس کی نفی تو پھر بھی ہوگئی کہ ملکہ شعر کی نفی تو ان کو بھی تسلیم ہے۔ بہرکیف جمہور امت کا اس پر اتفاق ہے کہ آنحضرت ﷺ کو نہ شعر سکھایا گیا تھا اور نہ ہی یہ آپ ﷺ کی شان کے لائق تھا۔ اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ۔ ؓ ۔ فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ کو سب سے زیادہ نفرت شعر سے تھی ۔ " کان الشِّعْر اْبغَضَ الْکَلاَمِ الیہ " ۔ ابن کثیر، خازن وغیرہ) ۔ اس لئے جمہور علماء و مفسرین کرام کا اس پر اجماع و اتفاق ہے کہ آپ ﷺ کو نہ شعر آتا تھا اور نہ ہی یہ شعر گوئی آپ ﷺ کی شان کے لائق تھی۔ (روح، قرطبی، بیضاوی، مراغی، ابن جریر، ابن کثیر، مدارک، صفوہ وغیرہ وغیرہ) ۔ بہرکیف اس ارشاد سے ان لوگوں کی تردید فرما دی گئی جو قرآن کو شعر اور پیغمبر کو شاعر قرار دیتے تھے اور صاف طور پر بتادیا گیا کہ ہم نے نہ تو پیغمبر کو شعرگوئی سکھائی اور نہ ہی یہ چیز آپ ﷺ کی شان اور آپ ﷺ کے منصب عالی کے لائق ہی تھی کہ شعر گوئی اور شاعری شان نبوت سے ایک فروتر چیز ہے۔ پیغمبر کا مرتبہ اور آپ کی شان اس سے کہیں اعلیٰ وارفع ہوتی ہے۔ وہاں پر سراسر حق وصدق کی ترجمانی ہوتی ہے۔
Top