Tafseer-e-Madani - Yaseen : 9
وَ جَعَلْنَا مِنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ سَدًّا وَّ مِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَاَغْشَیْنٰهُمْ فَهُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ
وَجَعَلْنَا : اور ہم نے کردی مِنْۢ : سے بَيْنِ اَيْدِيْهِمْ : ان کے آگے سَدًّا : ایک دیوار وَّمِنْ خَلْفِهِمْ : اور ان کے پیچھے سَدًّا : ایک دیوار فَاَغْشَيْنٰهُمْ : پھر ہم نے انہیں ڈھانپ دیا فَهُمْ : پس وہ لَا يُبْصِرُوْنَ : دیکھتے نہیں
اور ہم نے ان کے آگے بھی ایک دیوار کھڑی کردی ہے اور ان کے پیچھے بھی ایک دیوار کھڑی کردی ہے پھر (اوپر سے بھی) ان کو ایسا ڈھانک دیا ہے کہ انہیں کچھ سوجھ کے ہی نہیں دیتا
11 منکرین محرومی کی دیواروں کے اندر ۔ والعیاذ باللہ : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ منکرین کے آگے اور ان کے پیچھے ان کی محرومی کی دیواریں ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ " ہم نے انکے آگے بھی ایک دیوار کھڑی کردی ہے اور انکے پیچھے بھی ایک دیوار کھڑی کردی ہے "۔ یہ دوسری تمثیل ہے کہ جس طرح کسی شخص کے آگے پیچھے ہر طرف دیوار ہو اور اوپر سے بھی اس کو ڈھانک دیا جائے تو اس کے لئے راستہ دیکھنا اور معلوم کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اسی طرح ان لوگوں کا حال ہے۔ اور چاروں طرف کی یہ دیوار اور اوپر کی یہ چھت دراصل ان کی اپنی ضد وعناد اور ہٹ دھرمی کی وہ غیر مرئی دیواریں ہیں جو انہوں نے اپنے اردگرد خود قائم کر رکھی ہیں۔ جس سے یہ حق سے محروم ہیں۔ تو ان کی یہ محرومی دراصل ان کے اپنے ہی اختیار کردہ کبر ونخوت کی وجہ سے ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور " ہم نے دیوار کھڑی کردی " کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا قانون و دستور اور ہماری سنت یہی ہے کہ جو کوئی اس طرح اپنے کبر و نخوت کی بنا پر حق سے منہ موڑتا ہے اس کو ہم اسی محرومی کے حوالے کردیتے ہیں اور اس کو اسی راہ پر چھوڑ دیتے ہیں جس کو اس نے خود اپنایا ہوتا ہے ۔ { نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَ } ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ کیونکہ ایسوں کو ہدایت سے نوازنا نہ ہماری شان کے لائق ہے اور نہ ہی عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق ۔ { اَ نُلْزِمُکُمُوْہَا وَاَنْتُمْ لَہَا کَارِہُوْن ؟ } ۔ ایسے مستکبروں کے بارے میں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ یہ اپنی پچھلی روایات اور اپنے مستقبل کے مطامع کے غلام ہوتے ہیں۔ اور یہ دونوں چیزیں ان کی راہ میں اس طرح روک بن جاتی ہیں کہ ان سے ہٹ کر وہ کوئی چیز دیکھنے سننے اور ماننے کے قابل ہی نہیں رہ جاتے۔ سو استکبار محرومیوں کی محرومی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم - 12 اِعراض و استکبار کا نتیجہ محرومی ۔ والعیاذ باللہ العظیم -: سو اس اعراض و استکبار کے نتیجے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا کہ انکو کچھ سوجھتا ہی نہیں۔ کیونکہ جب آگے بھی دیوار ہے اور پیچھے بھی دیوار جس سے یہ لوگ نہ ماضی کے واقعات سے سبق لے سکتے ہیں نہ مستقبل کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔ اور تکبرو نخوت کی وجہ سے انہوں نے اپنے سروں کو اونٹوں کی طرح اوپر اٹھا رکھا ہے اور تعصب وعناد اور ضد و ہٹ دھرمی کی کالی پٹیاں انہوں نے اپنی آنکھوں پر باندھ رکھی ہیں تو پھر حق و ہدایت کی روشنی ان کو نظر آئے تو کیسے اور کہاں سے ؟ ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو معلوم ہوا کہ تکبر اور ہٹ دھرمی محرومی و بدنصیبی کی اساس اور جڑ بنیاد ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { سَاَصْرِفُ عَنْ اٰیَاتِیَ الَّذِیْنَ یَتَکَبَّرُوْنَ فِی الاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ } ۔ (الاعراف : 146) سو عناد و ہٹ دھرمی کے مارے ہوئے ایسے لوگ نہ ماضی اور مستقبل کی طرف نگاہ غور و فکر ڈالتے ہیں اور نہ ہی یہ اپنے آگے پیچھے پھیلی بکھری قدرت کی ان نشانیوں کو نگاہ عبرت و بصیرت سے دیکھ سکتے ہیں جو ہر وقت اپنی زبان حال سے دعوت غور و فکر دے رہی ہوتی ہیں۔ جس کے نتیجے میں ایسے معاند و مستکبر لوگ اندھے کے اندھے اور اوندھے کے اوندھے ہی رہ جاتے ہیں۔ ورنہ آسمان و زمین کی یہ ساری کائنات نشانہائے عبرت و بصیرت سے بھری پڑی ہے۔ مگر ایسے اندھوں اور اوندھوں کو کچھ سوجھتا ہی نہیں۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { اَفَلَمْ یَرَوْا اِلٰی مَا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ مِنَ السَّمَائِ وَالاَرْضِ } ۔ ( سباء :) یعنی کیا یہ لوگ آسمان اور زمین کی ان نشانیوں میں غور و فکر نہیں کرتے جو ان کے آگے اور پیچھے ہر طرف پھیلی بکھری ہیں ؟
Top