بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Madani - Az-Zumar : 1
تَنْزِیْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللّٰهِ الْعَزِیْزِ الْحَكِیْمِ
تَنْزِيْلُ : نازل کیا جانا الْكِتٰبِ : یہ کتاب مِنَ اللّٰهِ : اللہ کی طرف سے الْعَزِيْزِ : غالب الْحَكِيْمِ : حکمت والا
اتارا گیا ہے اس کتاب (حکیم) کو اللہ کی طرف سے جو سب پر غالب نہایت حکمت والا ہے
قرآن حکیم سراسر اتاری ہوئی کتاب : سو " تنزیل " کے لفظ سے واضح فرما دیا گیا کہ یہ سراسر اتاری ہوئی کتاب ہے۔ پس اس کتاب حکیم میں کسی انسانی کد و کاوش کا کوئی حصہ اور شائبہ تک نہیں۔ اسی لئے یہاں پر " منزل " نہیں " تنزیل " فرمایا گیا ہے۔ جو کہ مصدر ہے۔ یعنی یہ سراسر اتاری گئی کتاب ہے۔ اور جس ذات اقدس و اعلیٰ کی طرف سے اس کو اتارا گیا ہے اس کی ایک صفت ہے عزیز۔ جس میں بیک وقت دو عظیم الشان درس ہیں۔ ایک یہ کہ جو کوئی اس کتاب عزیز پر صدق دل سے اور سچا پکا ایمان رکھے گا اور اس کی تعلیمات مقدسہ کو اپنا راہبر و راہنما بنائے گا وہ ایسی سچی عزت اور ناموری سے سرفراز ہوگا جو اس کو دارین کی سعادت اور حقیقی فوز و فلاح سے مشرف کر دے گی۔ اور دوسری عظیم الشان حقیقت جو اس صفت " عزیز " سے عیاں ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ جو کوئی اس کتاب عزیز سے اعراض و روگردانی کرے گا وہ اس عزیز مطلق کی گرفت و پکڑ سے کبھی اور کسی طرح بچ نہیں سکے گا ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور دوسری صفت اس قادر مطلق کی جو یہاں ذکر فرمائی گئی ہے وہ ہے " حکیم "۔ سو اس میں بھی دو عظیم الشان درس ہیں۔ ایک یہ کہ جس نے اس کتاب حکیم کے علوم و معارف کو صدق دل سے اور صحیح طور پر اپنایا اس نے حقیقی معنوں میں حکمت و دانائی کی دولت کو سمیٹ لیا۔ اور جس نے اس سے منہ موڑا وہ حکمت و دانائی کی دولت سے یقینا محروم ہوا ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور دوسرا درس عظیم جو " حکیم " کی اس صفت جلیلہ سے ملتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ قادر مطلق جو بھی کرتا ہے عین حکمت کے مطابق کرتا ہے۔ اپنے خاص مومن و مطیع بندوں سے بھی اور سرکش و طاغی لوگوں سے بھی۔ پس نہ تو اس کے مومن اور مخلص بندوں کو کبھی مایوس اور شکستہ دل ہونے کی ضرورت ہے اور نہ ہی اس کے باغی اور سرکش بندوں کے لئے اس کی ڈھیل اور چھوٹ پر خوش ہونے کا کوئی موقع ہوسکتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ کہ ہر کسی نے اپنے کیے کرائے کا صلہ و بدلہ بہرحال پاکر رہنا ہے کہ یہ اس حکیم مطلق کی حکمت مطلقہ کا تقاضا ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ -
Top