Tafseer-e-Madani - Az-Zumar : 32
فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَبَ عَلَى اللّٰهِ وَ كَذَّبَ بِالصِّدْقِ اِذْ جَآءَهٗ١ؕ اَلَیْسَ فِیْ جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْكٰفِرِیْنَ
فَمَنْ : پس کون اَظْلَمُ : بڑا ظالم مِمَّنْ : سے ۔ جس كَذَبَ : جھوٹ باندھا عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ وَكَذَّبَ : اور اس نے جھٹلایا بِالصِّدْقِ : سچائی کو اِذْ : جب جَآءَهٗ ۭ : وہ اس کے پاس آئے اَلَيْسَ : کیا نہیں فِيْ جَهَنَّمَ : جہنم میں مَثْوًى : ٹھکانا لِّلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے
پھر اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوسکتا ہے جو جھوٹ باندھے اللہ پر ؟ اور وہ جھٹلائے سچائی کو جب کہ وہ پہنچ چکی ہو اس کے پاس کیا جہنم میں (دائمی) ٹھکانہ نہ ہوگا ایسے کافروں کے لئے ؟1
70 اللہ پر جھوٹ باندھنا سب سے بڑا ظلم ۔ والعیاذ باللہ العظیم : اس ارشاد سے اصل میں اللہ تعالیٰ کے اس فیصلے کی پیشگی خبر دے دی گئی جو اس کی عدالت میں حساب و کتاب کے اس یوم عظیم میں ہوگا۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ " اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوسکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے ؟ "۔ کہ اس کے لئے شریک ٹھہرائے، اس کے لئے اولاد مانے یا فرشتوں کو اس کی بیٹیاں قرار دے وغیرہ وغیرہ۔ سو یہ سب کذب علی اللہ " اللہ پر جھوٹ باندھنا " ہے۔ اور استفہام یہاں پر انکاری ہے۔ یعنی ایسے شخص سے بڑھ کر ظالم اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ بلکہ یہ سب سے بڑھ کر ظالم ہے۔ اور ایسے ظالم لوگوں کو اپنے ظلم و بغاوت اور اپنے کیے کرائے کا بھگتان اس روز بہرحال بھگتنا ہوگا ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہِ جل وعلا - 71 حق اور صدق کو جھٹلانا بھی بہت بڑا ظلم ہے ۔ والعیاذ باللہ : ۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ " یا وہ جھٹلائے سچ کو جبکہ وہ اس کے پاس پہنچ جائے "۔ یعنی اس حق و صدق اور سچائی کو جو پیغمبر کے ذریعے ان کے پاس پہنچ گئی توحید خداوندی کی دعوت، فرائض و احکام شریعت کی پابندی، محرمات و نواہی الہیہ سے بچنے کی تعلیم و تلقین اور قیام قیامت کا عقیدئہ و خبر اور اس کے لئے تیاری وغیرہ ۔ { اذ جاء ہ } ۔ کی قید سے اتمام حجت کے پہلو کی طرف اشارہ فرما دیا گیا ہے۔ کیونکہ اگر کسی کے پاس سچائی پہنچی نہیں یا اس میں کوئی خفا رہ گیا ہو اور اس بنا پر آدمی اس سے محروم رہ جائے تو اس کیلئے کچھ عذر ہوسکتا ہے۔ لیکن جس کے پاس سچائی پہنچ چکی ہو اور حق اور حقیقت کی وضاحت پوری طرح ہوچکی ہو اور وہ اس کے باوجود اپنی ہٹ دھرمی سے اسکا انکار کرے تو اس کیلئے کسی عذر کی کوئی گنجائش آخر کس طرح ہوسکتی ہے ؟ صدق سے یہاں پر مراد قرآن حکیم ہے جو کہ سچائی کا جامع اور حق و صدق کا منبع ومصدر ہے۔ اور جس نے اپنے بیان حق ترجمان سے ہر باب میں اختلاف کو رفع کر کے حق و صدق کو پوری طرح واضح کردیا۔ سو اس نور حق و ہدایت کو صدق دل سے اپنانا دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے۔ جبکہ اس سے اعراض و روگردانی اور اس کی تکذیب ۔ والعیاذ باللہ ۔ ظلموں کا ظلم اور محرومیوں کی محرومی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ اپنی پناہ میں رکھے ۔ آمین۔ 72 کافروں کا ٹھکانا یقینی طور پر جہنم ہے ۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا اور تاکید و تقریر کے لیے استفہام کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ " کیا جہنم ٹھکانہ نہیں ہے ایسے کافروں کا ؟ "۔ استفہام یہاں پر تقریری ہے۔ یعنی ہاں۔ ایسے منکروں کے لئے دوزخ ہی آخری ٹھکانا ہے اور وہی ان کا ٹھکانا ہونا چاہیئے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو اللہ پر جھوٹ باندھنا اور سچ کو جھٹلانا جبکہ وہ اس کے پاس پہنچ جائے ہولناک کفر اور سنگین جرم ہے۔ اور ایسے ہولناک کفر اور سنگین جرم کی سزا دوزخ کی وہ دہکتی بھڑکتی آگ ہی ہوسکتی ہے۔ سو وہی ایسے کافروں کا دائمی ٹھکانہ ہوگا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو استفہامی انداز میں ارشاد فرما کر اس حقیقت کو مؤکد اور پکا فرما دیا گیا کہ ایسے کافروں کا ٹھکانا بھی دوزخ نہیں ہوگا ؟ سو جس کے اندر ذرہ برابر بھی معقولیت ہوگی وہ اس کی حقیقت کو تسلیم کرے گا کہ ایسے بدبختوں کا ٹھکانا دوزخ ہی ہونا چاہیے۔ سو حساب کے اس یوم عظیم میں ایسے ہی ہوگا اور اس قسم کے تمام کافروں کو دوزخ میں ٹھونس دیا جائے گا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ اپنے حفظ وامان میں رکھے ۔ آمین۔
Top