Tafseer-e-Madani - Az-Zumar : 46
قُلِ اللّٰهُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ عٰلِمَ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ اَنْتَ تَحْكُمُ بَیْنَ عِبَادِكَ فِیْ مَا كَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ
قُلِ : فرمادیں اللّٰهُمَّ : اے اللہ فَاطِرَ : پیدا کرنے والا السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین عٰلِمَ : اور جاننے والا الْغَيْبِ : پوشیدہ وَالشَّهَادَةِ : اور ظاہر اَنْتَ : تو تَحْكُمُ : تو فیصلہ کرے گا بَيْنَ : درمیان عِبَادِكَ : اپنے بندوں فِيْ مَا : اس میں جو كَانُوْا : وہ تھے فِيْهِ : اس میں يَخْتَلِفُوْنَ : اختلاف کرتے
کہو اے اللہ پیدا کرنے والے آسمانوں اور زمین کے (بغیر کسی سبق مثال کے اور ایک برابر) جاننے والے نہاں وعیاں کے تو ہی (آخری) فیصلہ فرمائے گا اپنے بندوں کے درمیان ان تمام باتوں کا جن کے بارے میں یہ اختلاف کر رہے ہیں
90 ہٹ دھرموں کا معاملہ اللہ کے حوالے : سو اس سے ہٹ دھرموں کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالے کرنے کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ کہو اے پیدا کرنے والے آسمانوں اور زمین کے۔ اور ایک برابر جاننے والے نہاں وعیاں کے۔ تو ہی فیصلہ فرمائے گا اپنے بندوں کے درمیان ان تمام باتوں کے بارے میں جن میں یہ لوگ اختلاف کر رہے ہیں۔ پس تو ہی اے میرے مالک ! میرے لئے کافی ہوجا اور مجھے راہ حق پر ثابت قدم رکھ۔ جیسا کہ صحیح مسلم اور سنن ابوداؤ وغیرہ میں اسماء وصفات کے ضمن میں ام المومنین حضرت عائشہ ۔ ؓ ۔ سے تفصیلاً مروی ہے۔ سو اس میں پیغمبر کو یہ تلقین فرمائی گئی ہے کہ آپ ان ہٹ دھرم لوگوں کا معاملہ اللہ ہی کے حوالے کردیں۔ کیونکہ یہ لوگ جب اپنی خیالی جنت سے نکلنے کو تیار نہیں تو ان سے الجھنے اور انکو منہ لگانے سے کیا فائدہ ؟ ایسے ہٹ دھرم لوگ تو ایسے ہی خیالی پلاؤ پکانے اور مزیدار خواب دیکھنے میں لگے رہیں گے۔ یہاں تک کہ اپنے آخری انجام کو پہنچ کر رہیں گے۔ اس لیے آپ اپنے رب کے حضور یہ دعا کریں جو یہاں تلقین فرمائی گئی ہے کہ آپ کا رب ہی ان کے درمیان اپنے عدل و انصاف کے مطابق روز قیامت میں فیصلہ فرمائے گا ۔ سبحانہ و تعالیٰ -
Top