Tafseer-e-Madani - Az-Zumar : 49
فَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا١٘ ثُمَّ اِذَا خَوَّلْنٰهُ نِعْمَةً مِّنَّا١ۙ قَالَ اِنَّمَاۤ اُوْتِیْتُهٗ عَلٰى عِلْمٍ١ؕ بَلْ هِیَ فِتْنَةٌ وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
فَاِذَا : پھر جب مَسَّ : پہنچتی ہے الْاِنْسَانَ : انسان ضُرٌّ دَعَانَا ۡ : کوئی تکلیف وہ ہمیں پکارتا ہے ثُمَّ اِذَا : پھر جب خَوَّلْنٰهُ : ہم عطا کرتے ہیں اس کو نِعْمَةً : کوئی نعمت مِّنَّا ۙ : اپنی طرف سے قَالَ : وہ کہتا ہے اِنَّمَآ : یہ تو اُوْتِيْتُهٗ : مجھے دی گئی ہے عَلٰي : پر عِلْمٍ ۭ : علم بَلْ هِىَ : بلکہ یہ فِتْنَةٌ : ایک آزمائش وَّلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَهُمْ : ان میں اکثر لَا يَعْلَمُوْنَ : جانتے نہیں
پھر اس انسان (کی تنگ ظرفی) کا عالم یہ ہے کہ جب اس کو چھو جاتی ہے کوئی تکلیف تو یہ ہم ہی کو پکارتا ہے لیکن جب ہم اس کو عطا کردیتے ہیں اپنی طرف سے کوئی نعمت تو یہ (اکڑ کر اور بپھر کر) کہتا ہے کہ یہ تو مجھے اپنے علم (و ہنر) کی بناء پر ملی ہے (نہیں) بلکہ یہ تو ایک آزمائش ہے لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں
94 نعمت ذریعہ ابتلاء و آزمائش : سو انسان کو ملنے والی ہر نعمت ذریعہ ابتلاء و آزمائش ہے۔ چناچہ اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ انسان کو جو بھی کوئی نعمت ملتی ہے وہ اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے اور وہ اس کیلئے ابتلاء و آزمائش کا ذریعہ ہوتی ہے۔ یعنی یہ آزمائش کہ بندہ اس پر شکر کرتا ہے یا ناشکری۔ اور اس نعمت کو وہ خیر اور نجات کا ذریعہ بناتا ہے یا شر اور عذاب کا باعث ؟ ۔ والعیاذ باللہ ۔ مگر اکثر لوگ اس حقیقت سے ناواقف ہیں جس کے باعث ایسا انسان راہ حق و ہدایت سے سرفراز ہونے کی بجائے الٹا ہلاکت و تباہی کے گڑھوں میں اوندھا گرتا ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو اصل حقیقت بہرحال یہی ہے کہ انسان کو جو بھی کوئی نعمت ملتی ہے وہ نہ اس کی اپنی قابلیت کا نتیجہ ہوتی ہے اور نہ ہی کسی اور ہستی کی عطا و بخشش۔ بلکہ وہ محض اللہ تعالیٰ ہی کا عطیہ و احسان ہوتا ہے۔ اور اس کے ذریعے وہ خالق ومالک بندے کا امتحان کرتا ہے کہ آیا یہ اسکا شکر ادا کرتا ہے یا اس کو پاکر استکبار و سرکشی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اور انسان کو جو کوئی لیاقت اور قابلیت ملتی ہے وہ بھی توا للہ تعالیٰ ہی کا عطیہ اور اسی کا انعام و احسان ہوتا ہے۔ مگر دنیا کے اس دارالاسباب میں انسان کو جو بھی کچھ ملتا ہے وہ اسباب کے ذریعے ہی سے ملتا ہے۔ اس لیے کوتاہ نظر اور مادہ پرست انسان کی نظریں انہی ظاہری اسباب میں پھنس کر اور اٹک کر رہ جاتی ہیں۔ اور وہ حقیقت تک رسائی سے محروم ہوجاتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top