Tafseer-e-Madani - Az-Zumar : 65
وَ لَقَدْ اُوْحِیَ اِلَیْكَ وَ اِلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكَ١ۚ لَئِنْ اَشْرَكْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَ لَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ
وَلَقَدْ اُوْحِيَ : اور یقینا وحی بھیجی گئی ہے اِلَيْكَ : آپ کی طرف وَاِلَى : اور طرف الَّذِيْنَ : وہ جو کہ مِنْ قَبْلِكَ ۚ : آپ سے پہلے لَئِنْ : البتہ اگر اَشْرَكْتَ : تو نے شرک کیا لَيَحْبَطَنَّ : البتہ اکارت جائیں گے عَمَلُكَ : تیرے عمل وَلَتَكُوْنَنَّ : اور تو ہوگا ضرور مِنَ : سے الْخٰسِرِيْنَ : خسارہ پانے والے
اور بلاشبہ وحی کی گئی آپ کی طرف (اے پیغمبر ! ) اور ان (تمام انبیاء کرام) کی طرف بھی جو آپ سے پہلے گزر چکے ہیں کہ اگر تم نے بھی (بالفرض) شرک کا ارتکاب کرلیا تو یقینا اکارت چلے جائیں گے تمہارے سب عمل اور یقینا تم ہوجاؤ گے (ہمیشہ کے لئے) خسارہ اٹھانے والوں میں سے3
115 شرک تمام اعمال کی بربادی کا باعث۔ والعیاذ باللہ : سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ تمام انبیائے کرام کی طرف یہی وحی کی گئی۔ پس اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ عقیدئہ توحید کس قدر اہم چیز ہے اور شرک کی بیماری کس قدر خطرناک اور مہلک بیماری ہے کہ تمام انبیائے کرام ۔ علیہم الصلوۃ والسلام ۔ کی طرف سب سے پہلے اسی کی وحی کی گئی۔ اور ان کو اسی پیغام رسانی کی ہدایت فرمائی گئی۔ اور انہوں نے اپنی اپنی قوموں اور امتوں کو سب سے پہلے اسی کی دعوت دی اور تبلیغ فرمائی۔ مگر افسوس کہ اسی شرک کے منحوس سائے امت مسلمہ پر اس سب کے باوجود آج بھی جگہ جگہ اور طرح طرح سے چھائے ہوئے ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ بہرکیف پیغمبر کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا گیا کہ یہ جاہل تو آپ سے شرک کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن شرک کا مرض ایسا ہولناک اور اس قدر مہلک مرض ہے کہ آپ کی طرف اور آپ سے پہلے آنے والے تمام انبیائے کرام کی طرف بھی یہ وحی کی گئی کہ اگر بالفرض تم نے بھی شرک کیا تو تمہارے تمام عمل خبط ہوجائیں گے اور تم نامرادوں میں سے ہو کر رہ جاؤ گے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو فلاح و نجات کی راہ صرف یہ ہے کہ تم بندگی صرف اللہ ہی کی کرو اور اس کے شکر گزار بندوں میں سے بنو۔ یہاں پر یہ بھی واضح رہے کہ " حبط عمل " سے مراد یہ ہے کہ شرک کے ساتھ جو نیک عمل بھی اللہ پاک کی رضا کے لیے کیے جاتے ہیں وہ بھی سب کے سب اکارت اور ضائع ہو کر رہتے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے یہاں صرف وہی عمل شرف قبولیت پاسکتا ہے جو خالص اس کی رضا کے لیے کیا جائے۔ اور اگر حسن عمل میں شرک کا کوئی شائبہ پایا جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے یہاں شرف قبولیت نہیں پاسکتا۔ اور جو اللہ کے ساتھ اوروں کو بھی شریک مانتا ہے وہ اللہ کا شکر گزار ہو ہی نہیں سکتا اور اس کی دینداری کی ساری بنیادیں ڈھے جاتی ہیں۔ سو شرک ہلاکتوں کی ہلاکت ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم - 116 شرک کا نتیجہ و انجام سراسر خسارہ ۔ والعیاذ باللہ -: سو ارشاد فرمایا گیا کہ شرک کرنے کی صورت میں تم یقینا سخت خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوجاؤ گے "۔ یہ علی سبیل الفرض فرمایا گیا ہے کہ اگر بالفرض آپ ﷺ سے بھی اس کا ارتکاب ہوجائے اے پیغمبر تو یقینا باینہمہ عظمت شان اور جلالت قدر آپ ﷺ کے عمل بھی ضائع ہوجائیں گے۔ تو پھر دوسروں کا کیا حال ہوگا۔ سو یہ تعبیر بلاغت کے مشہور و معروف اسلوب کے مطابق اختیار فرمائی گئی ہے۔ یعنی معاملے کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور زور بیان کو زیادہ ظاہر اور واضح کرنے کے لئے اسے علی سبیل الفرض اختیار فرمایا گیا ہے۔ ورنہ حضرات انبیائے کرام ۔ علیہم الصلوۃ والسلام ۔ تو بہرحال معصوم اور ہر شائبہ شرک و کفر سے پاک اور بری ہوتے ہیں۔ ان سے کوئی بھی گناہ اور خاص کر شرک جیسا کبیرہ گناہ کیسے اور کیونکر صادر ہوسکتا ہے ؟ سو اس قسم کے مواقع میں خطاب اگرچہ نظر بظاہر پیغمبر۔ (علیہ الصلوۃ والسلام) ۔ ہی سے ہوتا ہے لیکن سنانا اور بتلانا دراصل دوسروں کو مقصود ہوتا ہے۔ بعض لوگ ایسے مواقع پر پیغمبر کو مخاطب قرار دینے کی بجائے جو دوسروں کو مخاطب قرار دیتے ہیں اور " اے سننے والے " یا " اے مخاطب " جیسے الفاظ سے ترجمہ کرتے ہیں۔ سو کلام میں اس کی گنجائش اگرچہ موجود ہوتی ہے لیکن ارباب ذوق سلیم اور اصحاب طبع مستقیم پر یہ بات مخفی نہیں کہ اس صورت میں کلام میں وہ زور باتی نہیں رہتا جو کہ بلاغت کا مقتضیٰ ہے اور جو اس کے برعکس پہلی صورت میں پایا جاتا ہے۔ اور یوں بھی وحی الہٰی کے اولین مخاطب اور سب سے پہلے سننے والے چونکہ پیغمبر ہی ہوتے ہیں، اس لئے بات پھر بھی وہیں پہنچتی اور وہی رہتی ہے جو کہ پہلی صورت میں تھی اور ہے۔ کیونکہ دوسروں کو تو یہ نور پیغمبر کے واسطے سے ہی نصیب ہوتا ہے۔ اس لئے کہ اس طرح کے ارشادات کے اولین مخاطب اور پہلے سامع تو بہرحال پیغمبر ہی ہوتے ہیں ۔ صَلَوَات اللّٰہِ وَسَلامُہ عَلَیْہِ وَعَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْنِ وَمَنْ تَبِعَہُمْ بِاِحْسَانٍ الَی یَوْمِ الْعَرْضِ عَلَی اللّٰہِ والِّلقَآئِ ۔ اسی لئے جمہور مفسرین کرام اور دیگر اکثر اہل علم اس کا وہی پہلے والا مطلب و مفہوم مراد لیتے ہیں۔ نمونے کے لئے چند حوالے ملاحظہ ہوں ۔ " ہٰذَا خطاب مَع الانبیائِ والمراد منہ غیرہم او کلام علی سبیل الفرض " ۔ (جامع البیان) ۔ " اَیْ لَئِنْ اَشْرَکْتَ یَا مُحَمَّدُ " ۔ الخ (صفوۃ التفاسیر) ۔ " وَالْکَلامُ عَلٰی سَبِیْلِ الْفَرض والتَّقْدِیْرِ " ۔ (تفسیر المراغی) ۔ " ہٰذا الکلام وارد علی الفرض والمحالات یَصِحُّ فَرْضُہَا لاَغْرَاضٍ مُّختلفۃ " ۔ (محاسن التاویل) ۔ " وہٰذا خطاب مَعَ الرَّسُوْلِ ﷺ و المراد بہ غیرہ " ۔ (خازن) اور یہ ایسے ہی ہے جیسے ۔ " ولَوْ اَشْرَکُوْا لَحَبِطَ عَنْہُمْ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ " ۔ میں ہے۔ (ابن کثیر) ۔ " فَہُوَ کلام علٰی سبیل الفرض لِتَہیج المخاطب المعصوم اِقْنَاط الکفرۃ والایذان بغایۃ شناعۃ الاشراک و قبحہ و کونہ بحیث یُنْہٰی عَنْہُ مَنْ لا یکاد یُبَاشِرُہ فکیف فمَنْ عداہ " ۔ (روح المعانی) سو اصل بات جو کہ تقاضا ہے بلاغت کا اور جو قول وقرار ہے تمام مفسرین کرام اور جمہور اہل علم کا وہ یہی ہے کہ اس موقع پر اور ایسے ہر موقع پر خطاب اگرچہ بظاہر پیغمبر سے ہی ہوتا ہے کہ وحی خداوندی کے اصل اور اولین مخاطب بہرحال آپ ﷺ ہی ہیں۔ لیکن سنانا دراصل اس میں دوسروں کو ہوتا ہے۔ سو جب شرک کی سنگینی کا یہ عالم ہے تو پھر پیغمبر سے اس کی توقع کا سوال ہی کیا پیدا ہوسکتا ہے ؟ ۔ (علیہ السلام) ۔ اللہ ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے ۔ آمین ثم آمین۔
Top