Tafseer-e-Madani - Az-Zumar : 73
وَ سِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ اِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا١ؕ حَتّٰۤى اِذَا جَآءُوْهَا وَ فُتِحَتْ اَبْوَابُهَا وَ قَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْهَا خٰلِدِیْنَ
وَسِيْقَ : ہنکا (لے جایا) جائے گا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اتَّقَوْا : وہ ڈرے رَبَّهُمْ : اپنا رب اِلَى الْجَنَّةِ : جنت کی طرف زُمَرًا ۭ : گروہ در گروہ حَتّىٰٓ : یہاں تک کہ اِذَا : جب جَآءُوْهَا : وہ وہاں آئیں گے وَفُتِحَتْ : اور کھول دیے جائیں گے اَبْوَابُهَا : اس کے دروازے وَقَالَ : اور کہیں گے لَهُمْ : ان سے خَزَنَتُهَا : اس کے محافظ سَلٰمٌ : سلام عَلَيْكُمْ : تم پر طِبْتُمْ : تم اچھے رہے فَادْخُلُوْهَا : سو اس میں داخل ہو خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہنے کو
ادھر (اعزازو اکرام کے ساتھ) لے جایا جائے گا ان لوگوں کو جو ڈرتے رہے تھے اپنے رب سے (اپنی دنیاوی زندگی میں) جنت کی طرف گروہ در گروہ کر کے یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس پہنچ جائیں گے تو اس کے دروازے کھلے ہوئے ہوں گے اور وہاں کے محافظ ان سے کہیں گے کہ سلام ہو تم پر بہت اچھے رہے تم پس داخل ہوجاؤ اب تم اس میں ہمیشہ رہنے کے لئے
134 سو متکبروں کا ٹھکانا بڑا ہی برا ۔ والعیاذ باللہ : ۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ " بڑا ہی برا ٹھکانہ ہوگا متکبروں کا " کہ اسی تکبر کی وجہ سے وہ حق کو قبول کرنے اور اس کی پیروی کرنے سے محروم رہے۔ سو ان سے کہا جائے گا کہ اب چکھو مزہ تم لوگ اپنے اس تکبر اور کفر و انکار کا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو دوزخ کا یہ ہولناک عذاب نتیجہ ہوگا انکے کفر و انکار کا۔ اور انکے اس کفر و انکار کا اصل سبب انکا وہ کبر و غرور ہوگا جس میں یہ لوگ مبتلا تھے اور جس کی وجہ سے یہ لوگ نور حق و ہدایت سے محروم رہے تھے۔ سو وہ بڑا ہی برا ٹھکانہ ہوگا جس میں انکو ہمیشہ رہنا ہوگا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو مستکبرین کی اس صفت سے ان لوگوں کی محرومی کے اصل سبب اور باعث کو آشکارا فرما دیا گیا کہ وہ استکبار اور اپنی بڑائی کا زعم اور گھمنڈ ہے کہ ان لوگوں نے اپنے باطن میں اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھا۔ اور اسی بنا پر انہوں نے حق سے منہ موڑا اور کفر و انکار کو اختیار کر کے اس ہولناک انجام اور ہمیشہ کے عذاب سے دوچار ہوئے ۔ اللہ ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے ۔ آمین ثم آمین۔ 135 جنتیوں کے انعام اور ان کے اعزازو اکرام کا ذکر : سو اہل کفر و باطل کے انجام کے ذکر کے بعد اہل جنت اور ان کے انعام کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ " اعزازو اکرام کے ساتھ لے جایا جائے گا پرہیزگاروں کو جنت کی طرف "۔ یعنی ان کی سواریوں کو اعزازو اکرام کے ساتھ اور جلدی جلدی جنت کی طرف لے جایا جائے گا تاکہ وہ جلد ان نعمتوں سے مستفید ہوں ۔ کَمَا وَرَد فِی الَاحَادِیْثِ الصَّحِیْحَۃ۔ (حاشیہ جامع البیان) ۔ اَللّٰہُمَّ اجْعَلْنَا مِنْہُمْ بِمَحْضِ مَنِّکَ وَکَرَمِکَ یا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ ۔ پس " سوق " کا لفظ کسی چیز کو کسی چیز کی طرف ہانک کر اور جلدی جلدی لے جانے کے معنیٰ میں آتا ہے۔ سو اپنی اصل کے اعتبار سے یہ لفظ اچھے اور برے دونوں ہی موقوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اسی لیے یہاں پر یہ اہل جنت اور اہل دوزخ دونوں کیلئے استعمال ہوا ہے۔ لیکن ان میں سے ہر ایک کا مفہوم دوسرے کے بالکل برعکس ہے کہ اہل دوزخ کو تو بڑے سنگین مجرموں کی طرح دھکے مار مار کر دوزخ کی طرف لے جایا جائے گا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { یَوْمَ یُدْعَوْنَ اِلٰی نَارِ جَہَنَّمَ دَعًّا } ۔ (الطور : 14) ۔ اور اہل جنت کو معزز مہمانوں کی طرح فرشتوں کے جلوس میں نہایت اعزازو اکرام کے ساتھ خدائے رحمن کی طرف لے جایا جائے گا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا گیا ۔ { یَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِیْنَ اِلٰی الرَّحْمٰنِ وَفْدًا، وَّنَسُوْقُ الْمُجْرِمِیْنَ اِلٰی جَہَنَّمَ وِرْدًا } ۔ (مریم : 85- 86) ۔ اللہ ہمیشہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر گامزن رکھے ۔ آمین۔ 136 جنتیوں کے لیے جنت کے دروازے کھلے ہوں گے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " جنتیوں کیلئے جنت کے دروازوں کو کھول دیا گیا ہوگا "۔ یعنی ۔ { وَفُتِحَتْ } ۔ میں واؤ حالیہ ہے کہ ان کے پہنچنے سے پہلے ہی جنت کے دروازے ان کے لئے کھول کر رکھ دئیے گئے ہوں گے۔ اور خدام وغیرہ ان کی آمد کے انتظار میں کھڑے ہوں گے۔ جیسا کہ شاہی مہمانوں کیلئے کیا جاتا ہے۔ بخلاف ابواب جہنم کے کہ وہاں واؤ حالیہ نہیں ذکر فرمائی گئی کہ وہاں کے دروازے اہل دوزخ کے وہاں پہنچنے پر ان کیلئے کھولے جائیں گے۔ نہ یہ کہ پہلے سے کھلے ہوں گے۔ سو اس تقابل سے اللہ پاک کی رحمت کی عظمت و وسعت کا بھی پتہ چلتا ہے ۔ فللہ الحمد ولہ الشکر۔ بہرکیف متقی اور پرہیزگار لوگوں کو جب فرشتوں کے جلو میں نہایت اعزازو اکرام کے ساتھ جنت کی طرف لے جایا جائے گا تو ان کے اعزازو اکرام کیلئے جنت کے دروازوں کو ان کیلئے کھول دیا گیا ہوگا۔ اور اس کے دربان و پاسبان تحیت وسلام کے ساتھ انکا خیرمقدم اور استقبال کریں گے۔ اور وہ انکو نہایت خوشکن اور دلنواز کلمات سے نوازیں گے۔ تو اس وقت انکو جو کچھ سرور حاصل ہوگا اسکا اندازہ کرنا ہی آج کس کے بس میں ہوسکتا ہے ؟ ۔ { فَلاَ تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا اُخْفِیَ لَہُمْ مِنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَائً ا بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ } ۔ (السجدۃ : 17) ۔ اللہ اپنے کرم بےپایاں سے ہمیں بھی اپنی اس جنت اور اس کی ان بےمثال نعمتوں سے نواز دے کہ اس کا کام اور اس کی شان ہی نوازنا اور ہمیشہ اور لگاتار نوازنا ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ اللہ ہمیں بھی اپنی خاص عنایتوں سے نوازے ۔ آمین ثم آمین۔ 137 جنتیوں کے لیے فرشتوں کی طرف سے ترحیب و تسلیم : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " جب ان خوش نصیبوں کو فرشتوں کے جلو میں جنت کی طرف لایا جائے گا تو فرشتے ان سے کہیں گے سلام ہو تم پر اور خوش رہو تم ۔ اے خوش نصیبو ! ۔ "۔ کہ دنیا میں تم نے نور ایمان اور عمل صالح کی دولت سے مالا مال ہو کر ایک پاکیزہ زندگی ۔ حیات طیبہ ۔ گزاری۔ جس کے نتیجے میں اب آپ لوگ اللہ پاک کے بےپایاں فضل و کرم سے جنت کی ان دائمی اور سدا بہار نعمتوں سے ہمکنار ہو رہے ہو۔ سو اس سے بڑھ کر کامیابی اور کیا ہوسکتی ہے ۔ { وَذَالِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْمُبِیْن } ۔ اللہ نصیب فرمائے ۔ آمین۔ سو ان سے کہا جائے گا کہ جس طرح آپ لوگ دنیا میں کفر و شرک اور معاصی وذنوب سے بچ کر رہے اور وہاں پر پاکیزہ زندگی گزاری تھی اسی طرح اب آپ لوگ یہاں پر ہر طرح کی تکلیف اور پریشانی سے محفوظ رہ کر جنت کی ان سدا بہار نعمتوں سے سرفراز و فیضیاب ہوؤ۔ سو اس وقت ان خوش نصیبوں کو جس خوشی و مسرت سے سرفرازی نصیب ہوگی اس کا اندازہ کرنا بھی کسی کے لیے ممکن نہیں ۔ اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل و کرم سے نصیب فرمائے اور ہمیشہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے ۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین -
Top