Tafseer-e-Madani - An-Nisaa : 101
وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ١ۖۗ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَكُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ اِنَّ الْكٰفِرِیْنَ كَانُوْا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِیْنًا
وَاِذَا : اور جب ضَرَبْتُمْ : تم سفر کرو فِي الْاَرْضِ : ملک میں فَلَيْسَ : پس نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَنْ : کہ تَقْصُرُوْا : قصر کرو مِنَ : سے الصَّلٰوةِ : نماز اِنْ : اگر خِفْتُمْ : تم کو ڈر ہو اَنْ : کہ يَّفْتِنَكُمُ : تمہیں ستائیں گے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) اِنَّ : بیشک الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) كَانُوْا : ہیں لَكُمْ : تمہارے عَدُوًّا مُّبِيْنًا : دشمن کھلے
اور جب تم کسی سفر پر نکلو (اے مسلمانو ! تو تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں کہ تم اپنی نمازوں میں (سے بعض رباعی نمازوں میں) کمی کردو، اگر تمہیں ڈر (اور خطرہ) ہو اس بات کا کہ کافر لوگ تمہیں ستائیں گے بیشک کافر لوگ تمہارے (پکے اور) کھلے دشمن ہیں،3
267 سفر شرعی کیلئے خاص رعایتوں کا اعلان وبیان : جو شرعی اعتبار سے سفر کی تعریف میں داخل ہو، جیسا کہ کتب حدیث و فقہ میں مذکور ہے کہ احکام سفر کا ترتب ایسے ہی خاص سفر پر ہوتا ہے جو کہ شرعی سفر کی تعریف میں آتا ہو۔ اور عربی کلام و محاورے کے مطابق " ضرب فی الارض " کا اطلاق و استعمال ہوتا ہی اس سفر کے لیے ہے جو جہاد فی سبیل اللہ اور تجارت وغیرہ جیسے نیک مقاصد کیلئے ہوتا ہے جبکہ " ضرب فی الارض " کا معنیٰ و مطلب ہوتا ہے کہ اس نے قضائے حاجت کیلئے سفر کیا۔ (فتح القدیر للشوکانی (رح) ) ۔ بہرکیف سفر شرعی کیلئے خاص سہولتیں اور رعایتیں ہیں کہ مومن کا سفر ہوتا ہی نیک مقاصد کیلئے ہے۔ اور انہی اہم رعایتوں میں سے جو کہ سفر شرعی پر دی گئی ہیں ایک سہولت و رعایت ہے نماز رباعی میں قصر کی اجازت۔ جس کا یہاں بیان فرمایا گیا ہے۔ یہاں پر ارشاد فرمودہ { لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ } کے الفاظ سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ سفر کی حالت میں نماز کے قصر کی یہ اجازت ایک رخصت اور عایت ہے۔ سو اس اعتبار سے اس کو پورا پڑھنا افضل و بہتر ہے 268 سفر میں قصر صلوٰۃ کی اجازت : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ایسے میں " تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم اپنی نمازوں میں کمی کرو " اور ان رباعی نمازوں میں چار کی جگہ دو رکعت پڑھو۔ اور سنتیں سفر میں نفل کے حکم میں ہو جائینگی۔ اگر فرصت و موقع ہو تو پڑھ لو ورنہ کوئی حرج نہیں۔ یہ قول جمہور مفسرین کا ہے کہ اس آیت کریمہ میں قصر صلوۃ سے مراد فرض نمازوں میں قصر رکعات ہے، جبکہ بعض حضرات کے نزدیک اس کا تعلق صلوٰۃ خوف سے ہے ۔ وَالْتّفْصِیْلُ فِی الْمُطَوَّلَات ۔ البتہ اتنی بات یہاں پر واضح رہنی چاہئے کہ اس میں قید نہیں کہ یہ آیت نازل تو بلا شبہ سفر جہاد سے متعلق ہی ہوئی ہے جیسا کہ سباق و سیاق سے ظاہر ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ حکم صرف سفر جہاد ہی کے ساتھ مخصوص ہے۔ اور سفر خواہ کوئی بھی ہو اس میں فی الجملہ تعب و تکلیف آیا ہی کرتی ہے اور فکر سامان وغیرہ دامن گیر رہتی ہی ہے۔ اس لئے سفر بحییثت سفر تخفیف اور رعایت کا متقاضی ہے۔ 269 خوف کی قید واقعی ہے نہ کہ احترازی : سو کافروں کے ستانے کے خدشے کی یہ قید احترازی اور شرط نہیں، بلکہ یہ بیان واقع کے طور پر ہے، کہ اس زمانے میں بالعموم سفر ایسے ہی ہوتے تھے۔ اس لئے امن کی حالت میں قصر کے جواز پر جمہور علماء و مفسرین اور ائمہ کرام کا اجماع ہے اور سنت صحیحہ میں اس کی تصریح موجود ہے، جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم وغیرہ میں حضرت عمر ؓ اور حضرت انس ؓ وغیرہ صحابہ کرام سے مروی و منقول ہے۔ (ابن کثیر، محاسن التاویل، معارف وغیرہ) ۔ چناچہ حضرت عمر ؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ اب ہم قصر کیوں کرتے ہیں جبکہ ہم امن وامان سے ہیں ؟ تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ یہ ایک صدقہ ہے جو اللہ نے تم پر فرمایا ہے۔ پس تم اس کو قبول کرو، (ابن کثیر، محاسن التاویل وغیرہ) کہ کافر تمہارے ایسے کھلے دشمن ہیں کہ تمہارے خلاف کھلم کھلا جنگ کرتے اور ہر طرح سے تمہارے نقصان کے در پے ہیں۔ اس بناء پر وہ موقع کی تاک میں ہوتے ہیں۔ سو اس ارشاد سے ایک طرف تو نماز کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے کہ عین جنگ کی حالت میں بھی وہ معاف نہیں اور دوسری طرف دشمنوں سے محتاط اور چوکنا رہے کہ تعلیم بھی ہے۔ تاکہ وہ کسی موقع پر اپنے مذموم مقاصد کیلئے فائدہ نہ اٹھا سکے۔ 270 کافر تمہارے کھلے دشمن ہیں : یہاں تک کہ اپنی اسی پکی اور کھلی دشمنی کی بنا پر ان کے یہاں نماز جیسی مقدس عبادت کا بھی کوئی پاس و احترام نہیں اور اس حالت میں بھی وہ اپنی ایذا رسانی اور شرانگیزی سے چوکنے والے نہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ اس لیے تم لوگوں کو اے مسلمانو ! ایسے دشمنوں سے ہوشیار اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ اور اسی بناء پر تم کو خاص احکام و ہدایات سے نوازا گیا ہے کہ کافر تمہارے ایسے کھلے دشمن ہیں کہ تمہارے خلاف کھلم کھلا جنگ کرنے اور تمہیں پوشیدہ طور پر نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ اس لئے وہ تمہیں نقصان پہنچانے کیلئے ہمیشہ موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ پس تمہیں ہر وقت ان سے محتاط رہنے اور ان کے ساتھ مقابلہ کے لئے تیار رہنے کی ضرورت ہے۔ سو اس ارشاد سے ایک طرف تو فریضہ نماز کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے کہ وہ عین حالت جنگ میں بھی معاف نہیں اور دوسری طرف دشمنوں سے ہمیشہ محتاط اور چوکنا رہنے کی ضرورت و اہمیت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ وہ ہر وقت تاک میں رہتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top