Tafseer-e-Madani - An-Nisaa : 105
اِنَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَاۤ اَرٰىكَ اللّٰهُ١ؕ وَ لَا تَكُنْ لِّلْخَآئِنِیْنَ خَصِیْمًاۙ
اِنَّآ : بیشک ہم اَنْزَلْنَآ : ہم نے نازل کیا اِلَيْكَ : آپ کی طرف الْكِتٰبَ : کتاب بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ (سچی) لِتَحْكُمَ : تاکہ آپ فیصلہ کریں بَيْنَ : درمیان النَّاسِ : لوگ بِمَآ اَرٰىكَ : جو دکھائے آپ کو اللّٰهُ : اللہ وَلَا : اور نہ تَكُنْ : ہوں لِّلْخَآئِنِيْنَ : خیانت کرنیولے (دغا باز) کے لیے خَصِيْمًا : جھگڑنے ولا (طرفدار)
بیشک ہم نے اتاری آپ کی طرف یہ (عظیم الشان) کتاب (اے پیغمبر ﷺ ! ) حق کے ساتھ، تاکہ آپ فیصلہ کریں لوگوں کے درمیان، اس کے مطابق جو اللہ آپ کو دکھائے، اور نہیں بننا خیانت کرنے والوں کی طرف سے جھگڑنے والا،
280 اللہ کی دکھلائے کے مطابق فیصلہ کرنے کی ہدایت : سو ارشاد فرمایا گیا کہ فیصل اللہ کے دکھلائے کے مطابق ہی کرو : سو آپ فیصلہ اسی کے مطابق کرو جو اللہ آپ کو دکھلائے صراحتا یا اشارہ و کنایہ کے انداز میں۔ بہرکیف وہ جس طرح بھی آپ کو دکھائے اسی کے مطابق آپ لوگوں کے درمیان فیصلہ کریں، تاکہ عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔ سو اس کتاب حکیم کے اتارنے کی اصل غرض وغایت یہی ہے کہ آپ اس کے مطابق اور اس رائے کی روشنی میں جو اللہ آپ کو دکھائے لوگوں کے درمیان بغیر کسی رو رعایت کے فیصلہ فرمائیں۔ روایات میں ہے کہ طعمہ بن ابیرق نامی ایک منافق نے ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں اپنے ایک پڑوسی کا کچھ سامان چرا کر بڑی چالاکی کے ساتھ اسے ایک یہودی کے ذمے لگا دیا۔ پھر یہودی کی جوابی نشاندہی کے بعد جب اس سے پوچھ گچھ کا موقع آیا تو اس کی قوم بنو ظفر نے بڑے زور وشور سے اس کی صفائی بیان کی اور اسے بےقصور ٹھہرا دیا۔ اس کے مطابق آنحضرت ﷺ نے اس کی براءت فرما دی۔ اور دوسری روایت کے مطابق اس کی براءت کا ارادہ فرمایا، تو اس پر یہ آیات کریمہ نازل ہوئیں جن سے حقیقت حال بھی واضح ہوگئی اور اسلامی قانون کی یہ عظیم اور ابدی دفعات بھی امت مسلمہ کو نصیب ہوگئیں ۔ والحمد للہ رب العالمین - 281 خیانت کرنے والوں کی طرفداری کرنے سے ممانعت : سو ارشاد فرمایا گیا کہ خیانت کرنے والوں کی طرف سے جھگڑنے والا نہیں بننا۔ جیسا کہ طعمہ بن ابیرق کے اس کیس میں لاعلمی سے ایسے ہوگیا تھا۔ سو اس سے معلوم ہوا کہ کسی معاملہ میں فیصلہ کرنے سے پہلے اس کے بارے میں صحیح علم حاصل کرنا نہایت ضروری امر ہے تاکہ نہ کسی کی حق تلفی ہونے پائے اور نہ کسی خائن کی طرف داری کی نوبت آئے۔ نبی معصوم ﷺ کو تو اللہ پاک وحی کے ذریعے آگہی بخشتا اور اس کی حفاظت فرماتا ہے۔ اور باقی کسی کو یہ شرف نصیب ہو نہیں سکتا۔ اس لئے ایسے تمام ذمہ دار لوگوں کو ایسے معاملات میں پوری پوری چھانٹ پھٹک کر لینی چاہیئے۔ طعمہ بن ابیرق کے اس قصے سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ پیغمبر نہ تو عالم غیب ہوتے ہیں نہ مختار کل۔ جیسا کہ ہمارے یہاں کے اہل بدعت کا کہنا ہے۔ سو اس طرح کے قصوں اور واقعات سے ان لوگوں کے اس طرح کے خود ساختہ عقیدوں کی جڑ کٹ جاتی ہے، کیونکہ اگر پیغمبر عالم غیب اور مختار کل ہوتے تو نہ ایسی صورتحال پیدا ہوتی اور نہ ہی اس پر آنحضرت ﷺ کو خطاب کرکے اس طرح کی تنبیہات فرمائی جاتیں ۔ صَلَوَات اللّٰہ وَسَلَامُہٗ عَلَیْہِ-
Top