Tafseer-e-Madani - An-Nisaa : 106
وَّ اسْتَغْفِرِ اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاۚ
وَّاسْتَغْفِرِ : اور بخشش مانگیں اللّٰهَ : اللہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
اور بخشش مانگو تم اللہ سے، بیشک اللہ بڑا ہی بخشنے والا، نہایت ہی مہربان ہے
282 پیغمبر کا استغفار ان کے مقام رفیع کے مطابق : سو ارشاد فرمایا گیا کہ بخشش مانگو اللہ سے۔ بیشک اللہ بڑا ہی بخشنے والا نہایت ہی مہربان ہے۔ یعنی آپ اے پیغمبر اس قسم کی باتوں سے استغفار کریں جو اگرچہ گناہ نہیں صرف خلاف اولیٰ قسم کی ہیں، مگر آپ ﷺ کی شان رفیع کے اعتبار سے یہ بھی بڑی چیز قرار پا جاتی ہیں۔ اس لیے آپ ﷺ اس پر استغفار کریں۔ امام ابن جریر طبری (رح) اس کی تفسیر میں کہتے ہیں " اِنَّ الْمَعْنی اِسْتَغفِر اللّٰہَ مِنْ ذَنْبِکَ فِیْ خِصَامِکَ لِلْخَائِنِیْنَ " سو اس سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ پیغمبر نہ عالم غیب ہوتا ہے نہ مختار کل۔ کیونکہ اگر ایسے ہوتا تو آپ ﷺ ایسے خلاف اولیٰ قسم کے کاموں کا بھی ارتکاب نہ کرتے، اور نہ ہی آپ ﷺ کو استغفار کا حکم دیا جاتا کہ استغفار اور اختیار کلی کے درمیان تضاد اور منافات ہے۔ اور صحیحین وغیرہ کی روایت کے مطابق آپ ﷺ نے اس کی مزید توضیح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ لوگو آگاہ رہو کہ میں ایک بشر اور انسان ہوں۔ میں جیسا سنتا ہوں اسی کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص زیادہ تیز طرار ہو اور میں اس کی حجت بازی کے مطابق اس کے حق میں فیصلہ کروں۔ سو یاد رکھو اگر میں نے کسی کے حق میں اس طرح کا کوئی فیصلہ کردیا تو اس سے وہ چیز اس کیلئے حلال نہیں ہوجائے گی بلکہ وہ اس کیلئے آگ کا ٹکڑا ہوگا۔ اب اس کی مرضی ہے کہ وہ اس کو لے لے یا چھوڑ دے۔ (بخاری کتاب المظالم، باب اثم من خاصم فی باطل و ہو یعلمہ) اب دیکھیے پیغمبر اپنے بارے میں خود کیا ارشاد فرماتے ہیں اور یہ لوگ کیا کہتے ہیں۔
Top