Tafseer-e-Madani - An-Nisaa : 113
وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ وَ رَحْمَتُهٗ لَهَمَّتْ طَّآئِفَةٌ مِّنْهُمْ اَنْ یُّضِلُّوْكَ١ؕ وَ مَا یُضِلُّوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَضُرُّوْنَكَ مِنْ شَیْءٍ١ؕ وَ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ١ؕ وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ عَظِیْمًا
وَلَوْ : اور اگر لَا : نہ فَضْلُ اللّٰهِ : اللہ کا فضل عَلَيْكَ : آپ پر وَرَحْمَتُهٗ : اور اس کی رحمت لَهَمَّتْ : تو قصد کیا ہی تھا طَّآئِفَةٌ : ایک جماعت مِّنْھُمْ : ان میں سے اَنْ يُّضِلُّوْكَ : کہ آپ کو بہکا دیں وَمَا : اور نہیں يُضِلُّوْنَ : بہکا رہے ہیں اِلَّآ : مگر اَنْفُسَھُمْ : اپنے آپ وَمَا يَضُرُّوْنَكَ : اور نہیں بگاڑ سکتے مِنْ شَيْءٍ : کچھ بھی وَاَنْزَلَ : اور نازل کی اللّٰهُ : اللہ عَلَيْكَ : آپ پر الْكِتٰبَ : کتاب وَالْحِكْمَةَ : اور حکمت وَعَلَّمَكَ : اور آپ کو سکھایا مَا : جو لَمْ تَكُنْ : نہیں تھے تَعْلَمُ : تم جانتے وَكَانَ : اور ہے فَضْلُ : فضل اللّٰهِ : اللہ عَلَيْكَ : آپ پر عَظِيْمًا : بڑا
اور اگر نہ ہوتی اللہ کی مہربانی، اور اس کی رحمت، آپ پر (اے پیغمبر ﷺ ! ) تو یقینا ٹھان لی تھی ان لوگوں میں سے ایک گروہ نے کہ وہ بھٹکا دیں آپ کو (راہ حق وصواب سے) حالانکہ وہ بھٹکاتے نہیں مگر خود اپنے ہی آپ کو، اور آپ کو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچاسکتے،1 اور اتاری اللہ نے آپ پر کتاب اور (عطا فرمائی اس نے آپ کو) حکمت، اور سکھایا اس نے آپ کو وہ کچھ جو آپ نہیں جانتے تھے، اور اللہ کا فضل آپ پر بہت بڑا ہے،2
290 بدنیتی اور خبث باطن باعث ہلاکت و تباہی ۔ والعیاذ باللہ : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ خبث باطن اور بدنیتی انسان کی اپنی ہی ہلاکت و تباہی کا باعث ہے ۔ والعیاذ باللہ : سو ایسے بدنیت لوگ اپنی ہی ہلاکت کا سامان کرتے ہیں اور آپ ﷺ تو قطعی طور پر راہ حق و صواب پر ہیں اور آپ کا محافظ اور حامی و ناصر اللہ ہے۔ پھر آپ کو کسی کا نقصان پہنچانے کا سوال ہی کیا پیدا ہوسکتا ہے ؟ سو آپ ﷺ کا تو یہ لوگ کچھ بھی نہیں بگاڑ سکیں گے، البتہ اپنی بدباطنی اور بدنیتی کی بناء پر یہ اپنی ہلاکت و تباہی میں اضافے کا سامان ضرور کریں گے۔ سو بدنیتی انسان کی اپنی ہی ہلاکت کا باعث بنتی ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ بہرکیف اس میں پیغمبر کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا آپ پر خاص فضل و کرم تھا کہ آپ ان منافقین کے شر سے محفوظ رہے ورنہ ان کی ایک جماعت تو دن رات اس کوشش میں مصروف تھی کہ کسی طرح آپ کو راہ حق سے پھیر دے لیکن اللہ نے آپ کو ان کے شرور و فتن سے محفوظ رکھا۔ پس بھروسہ ہمیشہ اسی وحدہ لا شریک پر رکھا جائے اور اسی سے صبر و استقامت کی دعا مانگی جائے۔ 291 حفاظت اللہ ہی کی حفاظت ہے ۔ سبحانہ وتعالی : سو ارشاد فرمایا گیا کہ یہ لوگ خود اپنے آپ ہی کو بہکاتے بھٹکاتے ہیں۔ آپ کو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے کہ آپ تو قطعی طور سے حق پر اور اللہ تعالیٰ کی حفاظت و عنایت میں ہیں۔ سو آپ ﷺ کو تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے بچا لیا، مگر انہوں نے اپنی بدباطنی کی وجہ سے گناہ کا بوجھ بھی اٹھایا اور دائمی ذلت و رسوائی کا طوق بھی اپنے گلے میں ڈالا۔ سو منکروں کے لئے ذلت و رسوائی کا طوق ہے ۔ والعیاذ با للہ ۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ کے پیاروں کو دھوکہ دینا اور ان کو راہ حق سے بھٹکانے کی کوشش کرنا بڑا سنگین جرم ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ نیز اس سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ عظمت و حفاظت اللہ کے فضل و کرم اور اسی کی رحمت و عنایت سے ممکن ہوسکتی ہے۔ اس کے بغیر انسان مہالک و مزالق سے نہیں بچ سکتا اور جب اللہ کے نبی اور نبیوں کے امام حضرت محمد ﷺ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے اس درجہ محتاج ہیں تو پھر اور کسی کیلئے کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ وہ از خود ایسے مزالق و مہالک سے بچ سکے ؟ ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ پس ہمیشہ اور ہر حال میں اسی وحدہ لاشریک کے فضل و کرم کا سوال کرنا چاہئے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید - 292 پیغمبر پر عنایات خداوندی کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے کتاب و حکمت کی دولت بےمثال و لازوال سے نوازا۔ یعنی قرآن و سنت سے (جامع البیان، صفوۃ التفاسیر، محاسن التاویل وغیرہ) کہ یہی دونوں ماخذ دراصل منبع ومصدر ہیں تمام حکمتوں اور دانائیوں کے۔ اور ایسے عظیم الشان منبع ومصدر کہ دنیا ان سے ان کے نزول و ورود سے لیکر اب تک لگاتار مستفید ہورہی ہے۔ اور قیامت تک اسی طرح سے مستفید و فیضیاب ہوتی رہے گی۔ سو کتاب و حکمت کی دولت وہ دولت بےمثال اور حکمت لازوال ہے جسکی دوسری کوئی نظیر و مثال نہ ممکن ہے نہ ممکن ہوسکتی ہے ۔ فالحمدللہ رب العالمین ۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے آپ کو کتاب و حکمت کی دولت بےمثال کی روشنی سے نواز کر ان اشرار کے شرور و فتن سے بچا لیا ۔ فالحمد للہ جل و علا - 293 " عَلَّمَکَ مَالَمْ تَکُنْ تَعْلَم " کا مطلب ؟ : یعنی احکام شریعت اور عقائد وغیرہ سے تعلق رکھنے والے وہ تمام غیبی علوم و معارف جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بذریعہ وحی عطاء فرمائے ہیں۔ پس اس سے اہل بدعت کا اپنے شرکیہ عقیدہ علم غیب کیلئے استدلال کرنا باطل اور مردود ہے۔ کیونکہ اس سے مراد غیب کے وہی علوم و معارف ہیں جن کا تعلق ہدایت وارشاد کے آپ ﷺ کے اصل منصب سے ہے، نہ کہ جمیع ماکان ومایکون کا علم۔ جیسا کہ اہل بدعت کا دعوی ہے۔ اور " ما " کا یہی کلمہ مجموعی امت کیلئے بھی استعمال ہوا ہے { وَیُعَلِّمُکُمْ مَّا لَََمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ } حالانکہ پوری امت کے عالم غیب ہونے کا دعویٰ خود اہل بدعت کو بھی نہیں۔ سو اس آیت کریمہ کے عموم سے علم غیب کے اہل بدعت کے شرکیہ عقیدہ کو کشید کرنا محض ان کی اپنی کور باطنی اور ہٹ دھرمی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ ورنہ اس سے مراد وہی علوم و معارف ہیں جن کا تعلق منصب نبوت سے ہے اور بس۔ اور یہ علوم و معارف اسقدر عظیم الشان، جلیل القدر اور وسیع الاطراف ہیں کہ ان کی عظمتوں اور وسعتوں کا اندازہ کرنا بھی کسی انسان کے لئے ممکن نہیں۔ ہمارے حضور کی عظمت شان کا احاطہ و ادراک کسی بشر کے امکان میں نہیں ﷺ 294 اللہ تعالیٰ کے فضل عظیم کا ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ آپ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے کہ آپ ﷺ کو دوسری بیشمار نعمتوں کے علاوہ، نبوت و رسالت جیسی اس عظیم الشان نعمت سے بھی نوازا ہے جس جیسی دوسری کوئی نعمت ہو ہی نہیں ہوسکتی۔ اور اس سے بڑھ کر یہ کہ آپ ﷺ کو تمام انبیاء و رسل کا امام و پیشوا اور خاتم بنایا گیا ﷺ سو اس کا تقاضا یہ ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے بڑے شکرگزار بن جائیں اور آپ کی امت بھی تمام امتوں سے بڑھ کر شکرگزار بن جائے کہ اس کو اس عظیم الشان اور بےمثال نعمت سے نوازا گیا اور اس کو خیرالامم کے شرف سے نوازا گیا ہے۔ (المراغی وغیرہ) ۔ اسی سے استدلال کر کے امام رازی (رح) نے کہا کہ یہ سب سے بڑی اور واضح دلیل ہے اس بات کی کہ فضائل و مناقب میں سب سے بڑا درجہ اور مرتبہ علم ہی کا درجہ و مرتبہ ہے۔ ( محاسن التاویل وغیرہ) ۔
Top