Tafseer-e-Madani - An-Nisaa : 114
لَا خَیْرَ فِیْ كَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىهُمْ اِلَّا مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَةٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلَاحٍۭ بَیْنَ النَّاسِ١ؕ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ فَسَوْفَ نُؤْتِیْهِ اَجْرًا عَظِیْمًا
لَا خَيْرَ : نہیں کوئی بھلائی فِيْ : میں كَثِيْرٍ : اکثر مِّنْ : سے نَّجْوٰىھُمْ : ان کے مشورے اِلَّا : مگر مَنْ اَمَرَ : حکم دے بِصَدَقَةٍ : خیرات کا اَوْ : یا مَعْرُوْفٍ : اچھی بات کا اَوْ اِصْلَاحٍ : یا اصلاح کرانا بَيْنَ النَّاسِ : لوگوں کے درمیان وَمَنْ : اور جو يَّفْعَلْ : کرے ذٰلِكَ : یہ ابْتِغَآءَ : حاصل کرنا مَرْضَاتِ اللّٰهِ : اللہ کی رضا فَسَوْفَ : سو عنقریب نُؤْتِيْهِ : ہم اسے دیں گے اَجْرًا : ثواب عَظِيْمًا : بڑا
کوئی خبر نہیں لوگوں کی اکثر سرگوشیوں میں، بجز اس کے کہ کوئی تلقین کرے صدقہ کرنے کی، یا نیک کام کی، یا لوگوں کے درمیان صلح (صفائی) کرانے کی، اور جو کوئی ایسا کرے گا اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے، تو (وہ بڑا ہی خوش نصیب ہے، کہ) عنقریب ہی ہم اس کو نوازیں گے بہت بڑے اجر سے،
295 لوگوں کی اکثر سرگوشیوں میں کوئی خیر نہیں : سو ارشاد فرمایا گیا کہ کوئی خیر نہیں لوگوں کی اکثر سرگوشیوں میں۔ کیونکہ اگر یہ کوئی خیر کا کام ہوتا تو اس کو چھپانے کی ضرورت نہیں تھی بلکہ اس کو تو ایسے لوگ ظاہر کر کے کرتے جیسا کہ عام انسانوں کا وطیرہ اور فطرت ہے۔ البتہ بعض اوقات ریاء وغیرہ کے خدشے سے انسان کچھ نیک کام بھی چھپا کر کرتا ہے۔ اس لئے یہاں سب مشوروں اور سرگوشیوں کے بارے میں { لا خیر } کا حکم نہیں لگایا گیا۔ بلکہ { فِیْ کَثِیْرٍ } کی قید لگا کر اکثر مشوروں کے بارے میں یہ حکم بیان فرمایا گیا ہے۔ نیز آگے { اِلَا مَنْ اَمََرَبِصَدَقَۃٍ } سے تین بڑے نیک کاموں کا استثناء بھی فرما دیا گیا کہ ان کاموں میں سرگوشی ممنوع و محذور نہیں بلکہ محمود و مطوب ہے تاکہ ایسا ہر کام ریاء و نمود کے ہر شائبہ سے محفوظ رہے۔ بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ نجویٰ یعنی سرگوشی اور رازداری بجائے خود کوئی بری چیز نہیں۔ اس لئے کہ بہت سے مواقع ایسے آتے ہیں جہاں سرگوشی اور راز داری کا طریقہ قرین مصلحت ہوتا ہے۔ اس میں بھلائی یا برائی بات کی نوعیت سے پیدا ہوتی ہے۔ بات اگر نیکی اور تقویٰ کی ہوگی تو ایسا نجویٰ نجوائے خیر بن جائیگا۔ اور اس کے برعکس اگر بات شر و فتنہ کی ہوگی تو یہ نجوی نجوائے شر بن جائیگا ۔ والعیاذ باللہ ۔ قرآن حکیم نے دوسرے مقام پر اس کی ضروری تفصیل ذکر فرما دی ہے، جیسا کہ سورة مجادلہ میں موجود ہے۔ بہرکیف جو نجویٰ و سرگوشی خبر کیلیے ہو اس میں کوئی حرج نہیں۔ ورنہ اس میں کوئی خیر نہیں۔ 296 نجوائے خیر پر اجر عظیم سے نوازنے کی خوشخبری : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس طرح کی نجوائے خیر کرنے والوں کو ہم عنقریب اجر عظیم سے نوازیں گے۔ یعنی آخرت میں کہ دارالجزاء دراصل آخرت ہی ہے۔ اور اعمال کا اصل اور پورا بدلہ آخرت ہی میں ملے گا۔ دنیا میں بھی اگرچہ اعمال کا کسی قدربدلہ ملتا ہے، لیکن وہ اصل اور حقیقی بدلہ نہیں ہوتا کہ اسکا موقع و مقام تو بہرحال آخرت کی دائمی زندگی ہی ہے کہ دنیاوی زندگی کی یہ مختصر و محدود فرصت تو عمل اور کمائی کیلئے ہے۔ یعنی آخرت کی کمائی کیلئے کہ اس میں کی گئی کمائی ہی پر آخرت کے فیصلے کا مدارو انحصار ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ سو یہ دنیا کمانے کی جگہ اور دارالعمل ہے۔ دارالجزاء اور بدلے کی جگہ نہیں۔ بدلے کی جگہ تو بہرحال آخرت ہی ہے۔ اور یوں دنیاوی زندگی کی اس فرصت میں اس کی گنجائش بھی نہیں کہ اس میں انسان کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ مل سکے۔ پورا بدلہ تو انسان کو آخرت کے اس جہاں ہی میں مل سکے گا جو کہ دارالجزاء ہے اور جسکی وسعت بھی لامحدود ہے۔ بہرکیف اس میں نجوائے خیر پر اجر عظیم سے نوازے جانے کی خوشخبری ہے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید -
Top