Tafseer-e-Madani - An-Nisaa : 115
وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَ نُصْلِهٖ جَهَنَّمَ١ؕ وَ سَآءَتْ مَصِیْرًا۠   ۧ
وَمَنْ : اور جو يُّشَاقِقِ : مخالفت کرے الرَّسُوْلَ : رسول مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا : جب تَبَيَّنَ : ظاہر ہوچکی لَهُ : اس کے لیے الْهُدٰى : ہدایت وَ : اور يَتَّبِعْ : چلے غَيْرَ : خلاف سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کا راستہ نُوَلِّهٖ : ہم حوالہ کردیں گے مَا تَوَلّٰى : جو اس نے اختیار کیا وَنُصْلِهٖ : اور ہم اسے داخل کرینگے جَهَنَّمَ : جہنم وَسَآءَتْ : بری جگہ مَصِيْرًا : پہنچے (پلٹنے) کی جگہ
اور (اس کے برعکس) جس نے مخالفت کی اللہ کے رسول ﷺ کی، اس کے بعد کہ کھل گئی اس کے لئے (حق و ہدایت کی) سیدھی راہ، اور اس نے پیروی کی اہل ایمان کے راستے کے سوا کسی اور (راستے) کے،3 تو ہم اس کو ادھر ہی پھیردیں گے جدھر وہ خود چلا، اور (آخر کار) ہم اسکو داخل کردیں گے جہنم میں، اور وہ بڑی ہی بری جگہ ہے لوٹنے کی،
297 اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت باعث ہلاکت و تباہی ۔ والعیاذ باللہ : کہ اس نے اللہ اور اس کے رسول کے حکموں کو توڑا اور جان کر ان کی خلاف ورزی کی ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور رسول کی مخالفت اور نافرمانی کی سب سے بڑی صورت یہ ہے کہ انسان پیغمبر کے لائے ہوئے دین متین سے پھرجائے اور اس سے مرتد ہوجائے ۔ والعیاذ باللہ ۔ (المراغی وغیرہ) ۔ سو اللہ ۔ جَلَّ جَلَاُلہٗ ۔ اور اس کے رسول اکرم ﷺ کی مخالفت ۔ والعیاذ باللہ ۔ ہلاکت و تباہی کی راہ ہے اور اس کا نتیجہ و انجام بہت ہی برا اور نہایت ہی ہولناک ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ جو لوگ اللہ کے رسول اور اس کی ہدایت کی مخالفت کرتے ہیں اور وہ اہل ایمان کے راستے سے ہٹ کر الگ اپنی پگڈنڈی اختیار کرتے ہیں اللہ ان کو ان کی اپنی چاہت اور انتخاب کے مطابق ان کی اپنی پگڈنڈی پر چلنے کے لئے آزاد چھوڑ دیتا ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور ان کی اپنی اختیار کردہ یہ راہ ان کو سیدھی لے جا کر جہنم میں ڈالیگی جو کہ خساروں کا خسارہ اور سب سے بڑی ناکامی ہے۔ اور یہ ایسا خسارہ ہے جس کی پھر تلافی بھی ممکن نہو گی ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی عنایت و پناہ میں رکھے ۔ آمین ثم آمین۔ 298 اہل ایمان کے راستے کی خلاف ورزی کا نتیجہ نہایت برا : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس نے اہل ایمان کے طریقے کو چھوڑ کر کسی اور طریقے کی پیروی کی۔ یعنی اس نے اہل ایمان کی راہ کو چھوڑ کر کسی ایسے راستے سے آپ کی پیروی کی جو کہ کتاب و سنت کی تعلیمات مقدسہ کے مقتضیٰ کے خلاف ہو کہ اہل ایمان کا راستہ وہی ہے جو ان تعلیمات کے مطابق ہو۔ اور وہ بھی وہ تعلیمات جو کہ صحیح فکر و فہم پر مبنی ہوں اور اسلاف امت یعنی صحابہ کرام اور ان کے تابعین اور اتباع تابعین کے توسط سے ہمارے پاس پہنچی ہوں۔ اور ان کو بھی انہی حضرات کی توضیح و تشریح کے مطابق مانا جائے۔ کیونکہ خیر القرون سے تعلق رکھنے والے یہ حضرات قرآن و سنت کے منشاء و مدعا اور اس کے صحیح مفہوم و مصداق کو بعد کے لوگوں سے بہرکیف زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتے تھے۔ اور اسی کی تائید و تصدیق پیغمبر (علیہ الصلوۃ والسلام) کے اس ارشاد عالی مقام سے ہوتی ہے " خَیْرُ الْقُرُوْن قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ ثُمَّ الَّذینَ یَلُوْنَہُمْ " سو قرآن و سنت، اور سلف امت، حضرات صحابہ کرام اور ان کے بعد آنے والے وہ تمام اصحاب صدق و صفا جو " وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِاِحْسَانٍ " کے زمرے میں آتے ہیں، ان کی راہ حق و صدق کو چھوڑ کر کوئی اور راہ اپنانا قطعی طور پر گمراہی ہے، جس کا انجام ہلاکت و تباہی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اسی لئے اہل حق کو اہل السنت والجماعت کہا جاتا ہے کہ وہ سنت کو بھی مانتے ہیں اور ان صاحب سنت یعنی حضرت رسالت پناہ (علیہ الصلوۃ والسلام) کے جملہ سچے پیروکاروں کو بھی۔ اس سے ہمارے یہاں کے بعض روسائے اہل بدعت نے جو مروجہ بدعات کے جواز و ثبوت پر دلیل کشید کرنے کی سعی مذموم کی کہ چونکہ یہ بدعات عام اور جاہل مسلمانوں میں رواج پذیر ہیں۔ اس لئے یہ درست ہیں۔ تو یہ استدلال سراسر باطل و مردود ہے۔ کیونکہ بات ان عامۃ المسلمین کی نہیں جو دینی تعلیمات سے نابلد و نا آشنا ہیں۔ بلکہ قرآن و سنت کی تعلیمات اور سلف امت کے فہم و ادراک کی ہے۔ اور ان میں سے کسی میں بھی ان بدعات میں سے کسی کا بھی نہ کوئی ثبوت ہے نہ وجود۔ نہ قرآن میں نہ حدیث میں۔ اور نہ ہی خیر القرون کے اصحاب خیرو برکت میں۔ بلکہ یہ تو صرف ہمارے برصغیر ہندو پاک کے اہل ھویٰ اور شکم پرست اہل بدعت کی ایجادیں ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور اسی طرح ان لوگوں کا " مَا راہُ الْمُسْلِمُوْنَ حَسَنًا فَہُو عِنْدَ اللّٰہ حَسَنٌٌ " کے مشہور اثر سے استدلال کرنا بھی سراسر باطل و مردود ہے۔ کیونکہ اس اثر کا بشرط صحت سیدھا صاف اور صحیح مطلب یہ ہے کہ جس چیز کو اہل علم و فضل، اور ثقہ مسلمان اچھا دیکھیں وہ اچھی ہے۔ نہ کہ وہ عامۃ المسلمین جن کو دین کی تعلیمات حقہ کا پتہ ہی نہ ہو۔ ورنہ آج کے دور میں تو سینما بینی، فلم بینی، جوابازی اور سودخوری وغیرہ کون کونسی برائیاں ہیں جو مسلم معاشرے کے اندر موجود نہیں۔ تو کیا اپنی اس منطق سے تم لوگ ان سب کے جواز کا فتوی دے دو گے ؟ اور اگر نہیں اور یقینا نہیں تو پھر تم لوگ یہاں پر یہ منطق کس طرح بگھارتے ہو ؟ 299 انسان اپنے انجام کا ذمہ دار خود : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ بندہ جدھر کا رخ کرے گا اس کو ادھر ہی چلتا کردیا جائے گا : کیونکہ دین و ہدایت کی عظیم الشان اور بےبدل نعمت زبردستی اور اعراض و انکار کے رویے پر کبھی نہیں مل سکتی، بلکہ وہ سچی طلب اور حقیقی تڑپ پر ملتی ہے، جس کو دلوں کے راز جاننے والا وہ علام الغیوب پوری طرح جانتا ہے۔ پس دارومدار آدمی کے اپنے ارادہ و اختیار پر ہے کہ وہ کدھر جانا چاہتا ہے۔ جدھر جائے گا اس کو ادھر ہی چھوڑ دیا جائے گا کیونکہ یہاں سودا زور زبردستی کا ہے ہی نہیں، بلکہ { نُولِّہٖ مَا تَوَلّٰی } کا اصول کارفرما ہے کہ انسان اپنے ارادہ و اختیار سے جدھر جانا چاہے گا اور جو رخ اور راستہ اپنائے گا اس کو اسی کے حوالے کردیا جائے گا۔ کہ دنیا کے اس دارالامتحان میں اصل مدارو انحصار انسان کے اپنے ارادہ و اختیار پر ہے۔ سو یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا { فَلَمَّا زَاغُوْا اَزَاغ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ وَاللّٰہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِیْنَ } (النصف : 5) یعنی جب ان لوگوں نے زیغ اور ٹیڑھے پن کو اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے نتیجے میں ان کے دلوں کو ٹیڑھا کردیا اور اللہ فاسق لوگوں کو ہدایت کی دولت سے نہیں نوازتا ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top