Tafseer-e-Madani - An-Nisaa : 116
اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَا يَغْفِرُ : نہیں بخشتا اَنْ يُّشْرَكَ : کہ شریک ٹھہرایا جائے بِهٖ : اس کا وَيَغْفِرُ : اور بخشے گا مَا : جو دُوْنَ : سوا ذٰلِكَ : اس لِمَنْ : جس کو يَّشَآءُ : وہ چاہے وَمَنْ : اور جس يُّشْرِكْ : شریک ٹھہرایا بِاللّٰهِ : اللہ کا فَقَدْ ضَلَّ : سو گمراہ ہوا ضَلٰلًۢا : گمراہی بَعِيْدًا : دور
بیشک اللہ نہیں بخشے گا اس بات کو کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے اور وہ بخش دے گا اس کے سوا جو بھی گناہ ہوگا، جس کے لئے چاہے گا، اور جس نے شرک کیا، تو وہ یقینا (راہ حق سے) بھٹک کر جاپڑا دور کی گمراہی میں،
300 شرک ناقابل معافی جرم ۔ والعیاذ باللہ : کیونکہ شرک کا جرم دراصل بغاوت کا جرم ہے، جو ناقابل معافی ہے۔ الا یہ کہ آدمی سچی توبہ کر کے اس سے باز آجائے اور شرک کی نجاست و گندگی سے اپنے آپ کو پاک کرلے۔ اہل بدعت کے بعض بڑے اور ان کے حواری ایسے موقع پر شرک کا ترجمہ کفر سے کرتے اور اس سے وہ کفر مرادلیتے ہیں۔ پتہ نہیں اس کی ان کو ضرورت کیا پڑی۔ اور شرک کی یہ طرف داری وہ کیوں کرتے ہیں حالانکہ یہاں پر { وَمَنْ یِّکْفُرْ } نہیں بلکہ { وَمَنْ یُّشرِکْ } فرمایا گیا ہے۔ اور لفظ کو اپنے ظاہر سے پھیرنے کیلئے کوئی خاص مقتضیٰ یا قرینہ صارفہ بھی یہاں موجود نہیں ہے۔ پھر ظاہر اور متبادر کا یہ ترک اور اس سے فرار آخر کیوں ؟ بہرکیف اس آیت کریمہ میں ایک مرتبہ پھر اس حقیقت کی تاکید فرما دی گئی کہ شرک کا جرم ایسا ہولناک اور اس قدر سنگین جرم ہے کہ حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ نے صاف اور صریح طور پر اس سے متعلق اعلان و ارشاد فرما دیا کہ اس کی بخشش کبھی بھی اور کسی بھی طرح نہیں ہوگی کہ یہ جرم ناقابل معافی جرم ہے۔ اس کے سوا جس جرم کو بھی وہ چاہیگا اپنی مشئیت سے اور اپنے علم و حکمت کے مطابق معاف فرما دے گا، مگر شرک کے اس ہولناک گناہ کو کبھی نہیں بخشے گا۔ مگر افسوس کہ اس کے باوجود دنیا کی واضح اکثریت شرک کے اس سنگین اور ہولناک جرم کی مرتکب ہے۔ کل بھی یہی تھا او آج بھی یہی ہے۔ اور مسلمان کہلانے والی اور توحید کی علمبردار امت کے ایک بڑے حصے کا یہی حال ہے۔ مصر کے مشہور مفسر شیخ احمد مصطفے المراغی مرحوم اپنی تفسیر میں اس بارے تحریر فرماتے ہیں کہ آج کل توحید کے دعویداروں میں کتنے ایسے ہیں جو قضاء حاجات اور تفریج کر بات کیلئے اللہ کے سوا اوروں کو پکارتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ لوگ اللہ کے پیارے اور ہمارے وسیلے اور واسطے ہیں۔ سو ایسے لوگوں کے مشرک ہونے کیلئے ان کا یہی طریقہ و عمل کافی ہے کیونکہ غیر اللہ کو حاجت روائی و مشکل کشائی کیلئے پکارنا اس کی پوجا کرنا اور اس کو شریک ٹھہرانا ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ " دعاء عین عبادت ہے " اور " دعاء عبادت کا مغز ہے "۔ (تفسیر المراغی) ۔ سو اس سے ان قسما قسم کی ان شرکیات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے جو برصغیر کے مختلف ملکوں میں جگہ جگہ اور طرح طرح سے پائی جاتی ہیں۔ کتنے ہی لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے مختلف فانی، عاجز، اور فوت شدہ ہستیوں کو حاجت روا و مشکل کشا قرار دے کر پوجتے پکارتے، انہی پر بھروسہ و اعتماد کرتے، قبروں آستانوں پر جھکتے، سجدے کرتے، ماتھے ٹیکٹے، ان کے گرد طواف کرتے، چکر لگاتے، پھیرے مانتے نذریں مانتے، نیازیں دینے اور دیگیں پکاتے، تقسیم کرتے ہیں وغیرہ۔ فَاِلَی اللّٰہ المُشُتَکی وہوَ الْمستعان ۔ اور ان کی کھوپڑیاں اتنی الٹی اور اس قدر اوندھی ہوگئی ہیں کہ ان لوگوں کو یہ بات بھی سمجھ نہیں آتی کہ جو خود اپنے آپ کو بیماری اور پھر موت کے منہ سے نہیں بچا سکتے اور وہ مر کر قبر کے کئی فٹ گہرے گھڑے اور ڈھیروں مٹی کے نیچے چلے گئے آخر وہ کسی کے حاجت روا و مشکل کشا کیسے ہوسکتے ہیں ؟ 301 شرک بہت دور کی گمراہی ۔ والعیاذ باللہ : یعنی حق سے دور اور اتنی دور کہ اس سے سچی توبہ اور رجوع الی الحق کے بغیر اس کی واپسی ممکن نہیں۔ اور ایسے میں عفو و درگزر کی بھی کوئی صورت ایسے لوگوں کیلئے ممکن نہیں ہوسکتی ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور یہ اس لیے کہ شرک گمراہی کی وہ قسم ہے جو کہ سب سے بڑی گمراہی ہے اور جو راہ حق و صواب اور صراط مستقیم سے بہت دور ہے۔ جس سے انسان کی روح فاسد اور اس کی عقل مسخ ہوجاتی ہے اور جس سے اس کا ہر عمل ناکارہ اور ناقابل قبول ہوجاتا ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ کیونکہ مشرک کا عمل مختلف شرکاء سے متعلق ہوجاتا ہے۔ جبکہ اللہ پاک کی بارگہ اقدس و اعلیٰ میں وہی عمل رسائی حاصل کرسکتا ہے جو کہ خالص اسی کی رضاء و خوشنودی کیلئے کیا جائے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو مشرک اپنے شرک کے باعث خدا سے کٹ جاتا ہے۔ اور اس کے نتیجے میں وہ اپنی باگ نفس و شیطان کے ہاتھ میں دے دیتا ہے۔ اور اس کے بعد وہ صراط مستقیم سے درجہ بدرجہ اور شدہ شدہ اتنا دور ہوجاتا ہے کہ اس کے لئے خدا کی طرف لوٹنے کا کوئی امکان ہی باقی نہیں رہ جاتا۔ تاآنکہ وہ سچی توبہ کرے۔ اس لئے خداوند قدوس کے یہاں شرک کی معافی نہیں اس کے برعکس توحید کے ساتھ اگر کسی سے گناہ ہو بھی جائیں تو اللہ جس کے لئے چاہیگا معاف فرما دے گا۔ سو شرک محرومیوں کی محرومی اور تمام شر و فساد کی جڑ بنیاد ہے اور توحید سعادت دارین سے سرفرازی کی اساس و بنیاد ہے ۔ اللہ ہمیشہ راہ حق پر مستقیم اور ثابت قدم رکھے ۔ آمین۔
Top