Tafseer-e-Madani - An-Nisaa : 152
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ وَ لَمْ یُفَرِّقُوْا بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ اُولٰٓئِكَ سَوْفَ یُؤْتِیْهِمْ اُجُوْرَهُمْ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۠   ۧ
وَ : اور الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَرُسُلِهٖ : اور اس کے رسولوں پر وَلَمْ يُفَرِّقُوْا : اور فرق نہیں کرتے بَيْنَ : درمیان اَحَدٍ : کسی کے مِّنْهُمْ : ان میں سے اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ سَوْفَ : عنقریب يُؤْتِيْهِمْ : انہیں دے گا اُجُوْرَهُمْ : ان کے اجر وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : نہایت مہربان
اور (اس کے برعکس) جو لوگ ایمان لائے اللہ پر، اور اس کے سب رسولوں پر اور انہوں نے (ایمان کے سلسلہ میں) ان میں سے کسی کی بھی کوئی تفریق نہیں کی تو ایسوں کو عنقریب ہی اللہ عطا فرمائے گا ان کے اجر، اور اللہ بڑی ہی بخشنے والا، نہایت ہی مہربان ہے،4
392 سچے ایمانداروں کی نشاندہی : پس جن لوگوں نے سب رسولوں پر ایمان لایا اور انہوں نے ایسا نہیں کیا کہ کسی رسول پر ایمان لایا اور کسی پر نہ لایا ہو، بلکہ انہوں نے بلا تفریق و استثناء سب کو مانا اور وہ ان سب پر ایمان لائے، اور یہی شان ہے امت محمدیہ کے ایمانداروں کی، کہ وہ سب ہی انبیائے کرام پر ایمان رکھتے ہیں۔ سو یہی خوش نصیب اصل مصداق ہیں اس آیت کریمہ کے۔ اور یہی مستحق ہیں اس آیت کریمہ میں وارد اس بشارت عظیمہ کے۔ اور یہی ہیں سچے پکے ایماندار اور مخلص مومن جنہوں نے اتباع ھوی کی بجائے اتباع ھدی کی راہ کو اپنایا جو کہ عقل و نقل اور فطرت سلیمہ کے تقاضوں کے عین مطابق حق و ہدایت کی راہ ہے۔ انہی کو اللہ تعالیٰ ان کے ان عظیم الشان اجر وثواب سے نوازے گا جس کے یہ اپنے ایمان و یقین اور صدق و اخلاص کی بنا پر مستحق ہوں گے ۔ والحمد للہ رب العالمین - 393 سچے ایمانداروں کیلئے ان کے اجر کا وعدہ : سو ایسوں کو اللہ تعالیٰ ان کے ان اجور سے نوازے گا جن کے وہ اللہ پاک کے فضل و کرم سے، اپنے سچے عقیدہ و ایمان اور عمل و کردار کی بناء پر اہل اور مستحق ہوں گے اور جن کے درجات و مراتب کو اللہ ہی جانتا ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ سو اسی کے مطابق وہ انکو نوازے گا ان کے صدق و اخلاص کی بناء پر۔ یہاں پر ارشاد ربانی کا یہ فرق بھی ملاحظہ ہو کہ ان کافروں کے بارے میں فرمایا گیا، ایسے لوگ پکے کافر ہیں لیکن ان مومنوں کے بارے میں ایسا ارشاد نہیں فرمایا گیا تاکہ کوئی اس دھوکے میں نہ پڑجائے کہ صرف ماننا ہی کافی ہے اور اس طرح عمل سے عاری ہوکروہ کہیں خسارے میں نہ پڑجائے۔ سو کمال ایمان جب ہی مستحق ہوسکتا ہے جبکہ ایمان کے ساتھ عمل صالح بھی پایا جائے۔ جیسا کہ سورة انفال کے شروع میں آیت نمبر 4 میں " انما " کے کلمہ حصر کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا ہے۔ چناچہ وہاں ایمان کے بعد اعمال صالحہ کا ذکر فرمایا گیا ہے اور اس کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا۔ (المراغی) کہ ایسے ہی لوگ ہیں پکے اور سچے مومن۔ 394 اللہ بڑا ہی بخشنہار انتہائی مہربان ہے : پس بشری تقاضوں کے سبب سرزد ہونے والی ان کی چھوٹی موٹی خطاؤں اور تقصیرات کو وہ اپنی رحمت و عنایت سے معاف فرما دے گا، کہ اس کی بخشش اور مہربانی کی وسعتیں ناپیدا کنار ہیں ۔ تبارک و تعالیٰ ۔ پس جن کا ایمان سچا ہو اور وہ اپنے عمل و کردار میں مخلص ہوں اور انہوں نے اپنے ایمان و یقین کو شرک اور شر کے شوائب سے محفوظ رکھا ہو ان کے چھوٹے موٹے گناہوں کو وہ اپنی رحمت و عنایت سے معاف فرما دے گا کہ وہ بڑا ہی بخشنہار اور انتہائی مہربان ہے۔ اور ایسے لوگوں کا رویہ باغیانہ اور سرکشانہ نہیں ۔ سبحانہ و تعالیٰ -
Top