Tafseer-e-Madani - An-Nisaa : 57
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا١ؕ لَهُمْ فِیْهَاۤ اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ١٘ وَّ نُدْخِلُهُمْ ظِلًّا ظَلِیْلًا
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کیے الصّٰلِحٰتِ : نیک سَنُدْخِلُھُمْ : عنقریب ہم انہیں داخل کریں گے جَنّٰتٍ : باغات تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ تَحْتِھَا : ان کے نیچے الْاَنْھٰرُ : نہریں خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہیں گے فِيْھَآ : اس میں اَبَدًا : ہمیشہ لَھُمْ : ان کے لیے فِيْھَآ : اس میں اَزْوَاجٌ : بیبیاں مُّطَهَّرَةٌ : پاک ستھری وَّنُدْخِلُھُمْ : اور ہم انہیں داخل کریں گے ظِلًّا : چھاؤں ظَلِيْلًا : گھنی
اور (اس کے برعکس) جو لوگ ایمان لائے، اور انہوں نے کام بھی نیک کئے، تو انہیں ہم ضرور داخل کریں گے (اپنے کرم سے) ایسی عظیم الشان جنتوں میں جن کے نیچے سے بہہ رہی ہوں گی طرح طرح کی نہریں، جہاں ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہنا نصیب ہوگا، ان کے لیے وہاں ایسی عظیم الشان بیویاں ہوں گی جن کو پاک کردیا ہوگا (ہر نقص وعیب سے) اور ان کو ہم داخل کرینگے گھنے سائے میں،4
132 جنت کی بیویوں کی عظمت شان کا ایک پہلو : کہ ان کو ہر قسم کے نقص و عیب سے پاک کردیا گیا ہوگا۔ سو " طاہرہ " اور " مطہرہ " میں فرق ہے اور یہاں پر " طاہرہ " نہیں " مطہرہ " فرمایا گیا ہے، جو کہ اسم مفعول ہے تطہیر سے۔ جس کے معنیٰ پاک کرنے کے آتے ہیں۔ یعنی جنت کی ان عورتوں کو ظاہری اور باطنی ہر طرح کے نقص و عیب سے پاک و صاف کردیا گیا ہوگا، جیسا کہ دوسری نصوص میں اس کی تفصیل و تصریح مذکور و موجود ہے۔ پس عام طور پر اس کا جو ترجمہ پاکیزہ بیویوں جیسے الفاظ سے کیا جاتا ہے وہ اس لفظ کا پورا ترجمہ نہیں لگتا اس لئے ہم نے ترجمہ ان الفاظ سے کیا ہے۔ دونوں کا فرق واضح ہے ۔ وَالْعِلْمُ عِنْدَ اللّٰہ وَالْحَمْدُ لِلّٰہ جَلَّ وَعَلَا ۔ بہرکیف اہل جنت کی ان پاکیزہ اور بےمثال عورتوں کو حیض و نفاس، بول و براز اور دوسرے تمام ظاہری اور باطنی عیوب و نقائص سے پاک کردیا گیا ہوگا۔ (ابن جریر، ابن کثیر، محاسن التاویل اور مدارک التنزیل وغیرہ) ۔ کہ وہاں پر ان کو ایک نئی زندگی اور نئی اٹھان ملی ہوگی۔ 133 اہل جنت کے لیے گھنے سایوں کی رحمت و عنایت : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اہل جنت گھنے سایوں کے اندر ہوں گے۔ جس میں نہ دھوپ کی کوئی تپش ہوگی اور نہ سردی کی ٹھر۔ بلکہ ایسا پرسکون سماں ہوگا جس میں گھنے سائے کی طرح آرام ملے گا ۔ اللہ نصیب فرمائے ۔ آمین۔ سو ان کو صراحت کے ساتھ اس خوشخبری سے نوازا گیا ہے۔ چناچہ ارشاد فرمایا گیا { وَنُدْخِلُہُم ظلاًّ ظَلِیْلاً } (النسائ : 57) نیز فرمایا گیا { اُکُلُہَا دَائِمٌ وَّظِلُّہَا } یعنی " وہاں کے پھل بھی دائمی ہوں گے اور وہاں کا سایہ بھی ہمیشہ ہوگا " (الرعد : 35) ۔ سو وہاں کی ہر چیز بےمثال ہوگی جسے وہاں دودھ اور شہد وغیرہ دنیا کے معروف طریقوں کیخلاف نہروں کی صورت میں ہوں گے۔ ایسے ہی وہاں سردی گرمی دھوپ سایہ وغیرہ بھی مختلف نوعیت کے ہوں گے، جیسا کہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جنت میں ایک ایسا درخت ہوگا جس کے سائے میں ایک سوار ایک سو سال تک چلتا رہے گا۔ (ابن کثیر، ابن جریر، قرطبی، محاسن التاویل وغیرہ) ۔ بہرکیف اہل کفر کے انجام اور ان کے عذاب کے ذکر کے بعد اب یہ اہل ایمان کے انعامات کا ذکر فرمایا جا رہا ہے جن سے ان کو نوازا جائے گا ۔ اللہ نصیب فرمائے ۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ یا ذا الجلال والاکرام -
Top