Tafseer-e-Madani - An-Nisaa : 61
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا اِلٰى مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَ اِلَى الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنٰفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْكَ صُدُوْدًاۚ
وَاِذَا : اور جب قِيْلَ : کہا جاتا ہے لَھُمْ : انہیں تَعَالَوْا : آؤ اِلٰى : طرف مَآ اَنْزَلَ : جو نازل کیا اللّٰهُ : اللہ وَاِلَى : اور طرف الرَّسُوْلِ : رسول رَاَيْتَ : آپ دیکھیں گے الْمُنٰفِقِيْنَ : منافقین يَصُدُّوْنَ : ہٹتے ہیں عَنْكَ : آپ سے صُدُوْدًا : رک کر
اور (ان کا حال یہ ہے کہ) جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ تم اس کتاب کی طرف جس کو اتارا ہے اللہ نے، اور آؤ تم اس کے رسول ﷺ کی طرف، تو تم دیکھو گے منافقوں کو کہ وہ آپ سے رکتے (اور روکتے) ہیں کنی کترا کر
146 صدّ کا معنیٰ و مطلب اور حق سے روکنے کا نتیجہ و انجام ؟ : یعنی " صَدَّ یَصُدُّ صَدًّا " لازمی بھی آتا ہے اور متعدی بھی۔ اس کا معنی " رکنا " بھی ہے اور " روکنا " بھی۔ اور ان لوگوں میں یہ دونوں باتیں پائی جاتی تھیں کہ یہ لوگ دین حق اور نور ہدایت سے خود بھی رکتے اور دور ہوتے تھے اور دوسروں کو بھی روکتے اور دور رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد فرمایا گیا { وَہُمْ یَنْہَوْنَ عَنْہُ وَ یَنْئَوْنَ عَنْہٗ } الایۃ (الانعام : 26) روایات کے مطابق مدینہ منورہ میں ایک یہودی اور ایک منافق کا آپس میں تنازع ہوگیا، جسمیں یہودی نے کہا چلو چلتے ہیں محمد ﷺ کے پاس اور ان سے فیصلہ کراتے ہیں۔ کیونکہ اسے یقین تھا کہ حضور ﷺ کا فیصلہ حق کے مطابق ہوگا۔ اور اس معاملے میں حق پر میں ہی ہوں۔ اس لئے آپ ﷺ کی عدالت سے فیصلہ یقینا میرے ہی حق میں ہوگا، جبکہ منافق کا کہنا تھا کہ ہم فیصلہ کراتے ہیں کعب بن اشرف سے، جو کہ ایک یہودی سردار تھا۔ کیونکہ اس کو یقین تھا کہ وہاں دوسرے باطل ذرائع اختیار کرکے میں فیصلہ اپنے حق میں کراسکتا ہوں۔ جبکہ آنحضرت ﷺ کے ہاں ایسا کرنا ممکن نہیں۔ سو آخرکار جب معاملہ حضور ﷺ کے پاس پہنچا تو آپ ﷺ نے پورا قصہ سننے کے بعد فیصلہ یہودی کے حق میں فرما دیا۔ اس کے بعد اس منافق نے یہودی سے کہا کہ چلو چلتے ہیں حضرت عمر ۔ ؓ ۔ کے پاس نظرثانی کے لئے۔ خیال یہ تھا کہ حضرت عمر کی غیرت ایمانی چونکہ ضرب المثل ہے، اور میں نام کا تو مسلمان ہی ہوں، اور یہ شخص یہودی ہے۔ اس لئے آپ ؓ میری چرب زبانی سے متاثر ہو کر اور اپنی غیرت ایمانی کے جوش میں میرے حق میں فیصلہ فرمادیں گے۔ جبکہ یہودی کو اپنی جگہ یہ یقین تھا کہ حضرت عمر کی غیرت ایمانی بیشک مسلم اور ضرب المثل ہی سہی، مگر آپ ؓ فیصلہ حق کے خلاف نہیں دیں گے۔ اسلئے وہ بھی اس کیلئے تیار ہوگیا۔ اور اس طرح یہ دونوں حضرت عمر ؓ کے پاس جانے کیلئے تیار ہوگئے۔ اور جب یہ اپنا کیس لیکر حضرت عمر ؓ کے پاس پہنچے تو حضرت عمر ؓ کے فیصلہ فرمانے سے پہلے یہودی نے کہا کہ جناب والا واضح رہے کہ اس کیس میں اس سے پہلے آنحضرت ﷺ یہ فیصلہ اس طرح صادر فرما چکے ہیں۔ یہ سنتے ہی حضرت عمر ؓ اپنے مکان کے اندر تشریف لے گئے اور ان دونوں سے فرمایا کہ تم دونوں یہیں ٹھہرو میں ابھی واپس آ کر تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہوں۔ اور اندر سے آپ ؓ نے تلوار لا کر اس منافق کی گردن اڑا دی اور فرمایا کہ جو شخص خدا اور اس کے رسول کے فیصلے پر راضی نہیں ہوتا اس کے بارے میں عمر کا فیصلہ یہی ہے۔ تو اس پر یہ آیات کریمہ نازل ہوئیں۔ اور اسی بناء پر آنحضرت ﷺ نے آپ ؓ کو " فاروق " کے لقب سے نوازا۔ (الروح، القرطبی، الکشاف، الصفوۃ، المعارف للکاندھلوی (رح) وللدیوبندی (رح) ) ۔ سو راہ حق اور نور ہدایت سے رکنے اور روکنے کا نتیجہ و انجام بہرحال ہلاکت و تباہی ہے، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا { وَاِنْ یُہْلِکُوْنَ اِلَّا اَنْفُسَہُمْ وَمَا یَشْعُرُوْنْ } (الانعام : 26) یعنی راہ حق سے روک کر ایسے لوگ خود اپنی ہلاکت و تباہی کا سامان کرتے ہیں لیکن ان کو اس کا شعور و احساس نہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top