Tafseer-e-Madani - An-Nisaa : 63
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ یَعْلَمُ اللّٰهُ مَا فِیْ قُلُوْبِهِمْ١ۗ فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ وَ عِظْهُمْ وَ قُلْ لَّهُمْ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ قَوْلًۢا بَلِیْغًا
اُولٰٓئِكَ : یہ لوگ الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يَعْلَمُ اللّٰهُ : اللہ جانتا ہے مَا : جو فِيْ قُلُوْبِهِمْ : ان کے دلوں میں فَاَعْرِضْ : تو آپ تغافل کریں عَنْھُمْ : ان سے وَعِظْھُمْ : اور ان کو نصیحت کریں وَقُلْ : اور کہیں لَّھُمْ : ان سے فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ : ان کے حق میں قَوْلًۢا بَلِيْغًا : اثر کرجانے والی بات
اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ ان کے دلوں میں ہے، پس آپ ان سے درگزر ہی کریں اور انہیں نصیحت کرتے رہیں، اور ان سے ان کے بارے میں کہہ دیاکریں رسابات،
148 اللہ تعالیٰ کے کمال علم کا حوالہ و ذکر : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اللہ دلوں کے چھپے حالات کو بھی جانتا ہے اور پوری طرح جانتا ہے۔ یعنی ان کے اس نفاق کو، جسے یہ دوسروں سے تو جھوٹی قسمیں کھا کر چھپالیتے ہیں، مگر دلوں کے بھید جاننے والے اس وحدہ لاشریک سے یہ کیسے چھپ اور چھپا سکیں گے۔ وہ تو بہرحال دلوں کے حالات کو بھی جانتا ہے اور پوری طرح جانتا ہے بلکہ وہ تو انسانوں کے دلوں کے ان حالات کو بھی جانتا ہے جو ابھی تک ان کے دلوں میں آئے ہی نہیں بلکہ بعد میں آئیں گے کہ اس کی شان ہے { یَعْلَمُ السِّرَّ وَاَخْفٰی } (طہٓ: 7) جسکی تفسیر میں حضرات علمائے کرام کا کہنا ہے کہ " سر " سے مراد وہ خیال ہے جو دل میں پوشیدہ ہو اور " اخفی " سے مراد وہ ہے جو اس سے بھی زیادہ مخفی اور پوشیدہ ہو۔ یعنی ابھی دل میں بھی نہ آیا ہو تو پھر اس سے کسی بات کو چھپانا کیونکر ممکن ہوسکتا ہے ؟ ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو اس کو مخلوق پر قیاس کر کے اس کے لیے وسیلے اور واسطے گھڑنا نری گمراہی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم - 149 منافقوں سے درگذر سے کام لینے کی تعلیم : سو ارشاد فرمایا گیا کہ آپ ان لوگوں سے درگزر ہی سے کام لیں۔ کہ نہ ان کو کوئی سزا دیں، اور نہ کوئی زجر و توبیخ کریں۔ کہ ایسے منافقوں کے ساتھ بہتر یہی طریقہ ہے کہ عفو و درگزر ہی سے کام لیا جائے، یہ اپنے کئے کرائے کا بھگتان خود ہی بھگت لیں گے۔ بس آپ ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ ہی کے حوالے کردیں۔ ان سے ظاہری طور پر عام مسلمانوں ہی کا سلوک کریں۔ اللہ ان سے خود ہی نپٹ لے گا ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ ایسوں سے اعراض اور رو گردانی ہی کرو کہ اسی میں بہتری اور بھلا تھا اہل حق کا ورنہ دشمن طرح طرح کے پروپیگنڈے کرتے۔ 150 قول بلیغ یعنی رسا بات کہنے کی ہدایت : سو اس سے منافقوں کو نصیحت کرنے اور ان سے قول بلیغ یعنی رسا بات کہنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے۔ یعنی ایسی بات جو ایک طرف تو حق و صداقت کی عکاس و آئینہ دار ہو، اور دوسری طرف وہ ان کے دلوں تک پہنچنے کی صلاحیت و قوت رکھتی ہو۔ تاکہ اس طرح جس کے نصیب میں ہو وہ حق قبول کرلے اور راہ حق و صواب کی طرف لوٹ آئے۔ تاکہ اس کا دنیا و آخرت میں بھلا ہوسکے۔ سو ان سے حق بات ایسے انداز میں کہو کہ ان کے کان کھلیں اور یہ منافقت کی روش کو ترک کر کے صدق و اخلاص کو اپنا سکیں۔ اور ان کا بھلا ہو سکے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ سبحان اللہ ! کیا کہنے دین حق کی رحمتوں بھری تعلیمات کے کہ ان میں سب کے لئے بھلا اور خیر خواہی مطلوب ہے ۔ فالحمد للہ رب العالمین -
Top