Tafseer-e-Madani - An-Nisaa : 8
وَ اِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ اُولُوا الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنُ فَارْزُقُوْهُمْ مِّنْهُ وَ قُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا
وَاِذَا : اور جب حَضَرَ : حاضر ہوں الْقِسْمَةَ : تقسیم کے وقت اُولُوا الْقُرْبٰي : رشتہ دار وَالْيَتٰمٰى : اور یتیم وَالْمَسٰكِيْنُ : اور مسکین فَارْزُقُوْھُمْ : تو انہیں کھلادو (دیدو) مِّنْهُ : اس سے وَقُوْلُوْا : اور کہو لَھُمْ : ان سے قَوْلًا : بات مَّعْرُوْفًا : اچھی
اور جب تقسیم کے وقت آ جایا کریں رشتہ دار، اور یتیم، اور مسکین (و محتاج) تو تم انہیں بھی اس میں سے کچھ دے دیا کرو (انکی دلجوئی کیلئے) ان سے بھلی بات بھی کہہ دیا کرو
20 میراث کا استحقاق نہ رکھنے والوں کے لئے بھلی بات کی تلقین : یعنی جن کا ترکے میں حصہ نہ ہو ان کو کچھ دے دیا کرو اور بھلی بات کہہ دیا کرو، تاکہ ان کی دلجوئی ہوجایا کرے ‘ اہل بدعت کے بعض بڑوں کی بدعت پرستی ملاحظہ ہو کہ اس آیت کریمہ سے انہوں نے بعض مروجہ بدعات یعنی تیجہ وغیرہ کے لئے دلیل کشید کرنے کی سعیٔ مذموم کی ہے، ِوَالْعِیَاذ باللّٰہ حالانکہ اس کا یہاں کوئی تعلق و ذکر ہی نہیں، نہ تیسرے دن کا کوئی سوال ہے، نہ تین کے ہند سے ہی کا کوئی ذکر ہے، یہاں تو ذکر صرف میراث کی تقسیم کا ہے، وہ جب اور جیسے ہو، اور جہاں ہو، سو اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انسان جب راہ حق و صواب کی پٹڑی سے اتر جاتا ہے تو وہ کس قدر بھٹک جاتا ہے اور کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے، وَالْعِیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْم بہرکیف اس سے واضح فرما دیا گیا کہ حصے معین ہوجانے کے بعد میراث کے قانونی حقدارتو وہی لوگ ہوں گے جن کے حصے مقرر فرما دیئے گئے ہیں، لیکن صلہ رحمی اور خاندانی اور انسانی ہمدردی کے عام حقوق پھر بھی باقی رہیں گے، اس لئے یہاں ارشاد فرمایا گیا کہ تقسیم میراث کے موقع پر اگر قرابت دار، اور یتیم اور مسکین آموجود ہوں، تو ان کو بھی اس میں سے کچھ دے دلا کر ان کی دلداری کی جائے، اور ان کی ڈانٹ ڈپٹ کی بجائے ان سے بھلی اور دلداری کی بات کی جائے، تاکہ ان کی دل شکنی نہو، سبحان اللہ، دین متین نے دوسروں کی دلجوئی اور دلداری کا کتنا خیال رکھا ہے ۔ اللہ نصیب فرمائے ۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔
Top