Tafseer-e-Madani - An-Nisaa : 85
مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً یَّكُنْ لَّهٗ نَصِیْبٌ مِّنْهَا١ۚ وَ مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَةً سَیِّئَةً یَّكُنْ لَّهٗ كِفْلٌ مِّنْهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ مُّقِیْتًا
مَنْ : جو يَّشْفَعْ : سفارش کرے شَفَاعَةً : شفارش حَسَنَةً : نیک بات يَّكُنْ لَّهٗ : ہوگا۔ اس کے لیے نَصِيْبٌ : حصہ مِّنْھَا : اس میں سے وَمَنْ : اور جو يَّشْفَعْ : سفارش کرے شَفَاعَةً : سفارش سَيِّئَةً : بری بات يَّكُنْ لَّهٗ : ہوگا۔ اس کے لیے كِفْلٌ : بوجھ (حصہ) مِّنْھَا : اس سے وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز مُّقِيْتًا : قدرت رکھنے والا
جس نے کوئی سفارش کی اچھی سفارش تو اس کے لیے حصہ ہوگا، اس (کے اجر) میں سے اور جس نے کوئی سفارش کی تو اس کیلئے بوجھ ہوگا اس (کے گناہ) میں سے اور اللہ ہر چز پر پوری قدرت رکھتا ہے،3
207 اچھی سفارش اور اس کا اچھا پھل : یعنی کوئی ایسی سفارش جس سے کسی دوسرے صاحب حق کی جائز حدود کے اندر بھلائی مقصود ہو، اور وہ اس نے کسی دنیاوی غرض و لالچ کے بغیر محض رضائے الہٰی کے لئے کی ہو۔ سو ایسی شفاعت حسنہ (اچھی سفارش) کا اجر وثواب اس کو ملے گا اور اس نیکی میں وہ شریک وسہیم ہوگا۔ شفع کے اصل معنی ایک چیز کو دوسری چیز سے جوڑنے اور نتھی کردینے کے ہوتے ہیں۔ اسی مفہوم سے ترقی کر کے یہ لفظ کسی کی بات کی تائید و حمایت یا اس کے حق میں سفارش کرنے کے معنیٰ میں استعمال ہوا۔ پھر آگے یہ سفارش اگر کسی مقصد حق کی تائید وتقویت کے لئے ہوگی تو " شفاعت حسنہ " یعنی اچھی سفارش کہلائیگی اور اگر اس سے مقصود کسی برے مقصد کی تائید وتقویت ہو تو یہ " شفاعت سیئہ " یعنی بری شفارش ہوگی۔ اسی لئے یہاں پر ان دونوں قسم کی سفارشوں اور ان کے نتیجہ وثمرہ کو بیان فرمایا گیا ہے۔ کہ جس نے کوئی اچھی سفارش کی تو وہ اس کے لئے اجر کا باعث بنے گی جبکہ بری سفارش اس کے لئے بوجھ ہوگی۔ 208 بری سفارش اور اس کا بوجھ : یعنی برابر کا۔ کیونکہ " کفل " دراصل مساوی اور برابر کے بوجھ ہی کیلئے استعمال ہوتا ہے بخلاف نصیب کے۔ کہ وہ زیادہ بھی ہوسکتا ہے۔ اس لئے یہاں پر اچھی سفارش " شفاعت حسنہ " کے بارے میں تو نصیب کا لفظ استعمال فرمایا گیا اور بری سفارش " شفاعت سیئہ " کے بارے میں " کفل " کا لفظ استعمال فرمایا گیا کہ برائی کا بدلہ اس کے مثل اور برابر ہی ملتا ہے، جبکہ نیکی کا صلہ و بدلہ اس سے کئی گنا زیادہ ملتا ہے، جیسا کہ دوسری مختلف نصوص کریمہ میں اس کی تصریح موجود ہے۔ (محاسن التاویل وغیرہ) ۔ فَسُبْحَانہٗ مِنْ الٰہٍ عَظِیْمٍ وَرَبٍّ غَفُوْرٍ کَرِیْمٍ مِنْ جَلَا لَۃ شَانِہٖ وَدِقَّۃ وَعَظْمَۃ کلَامِہٖ ۔ جَلَّ وَعَلَا شانَہٗ ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ راہ حق و صواب پر رکھے ۔ آمین ثم آمین۔ بہرکیف اچھی سفارش یعنی " شفاعت حسنہ " چونکہ نیک مقصد کے لئے اور دوسرے کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے ہوتی ہے اس لئے ایسے شخص کو اس کا اچھا بدلہ ملے گا اور وہ نیکی میں شریک ہوگا جبکہ بری سفارش برے مقصد کے لئے اور دوسروں کو نقصان پہنچانے کی غرض سے ہوتی ہے اس لئے ایسے شخص کو اس کا برا بدلہ ملے گا اور وہ اس برائی میں شریک و شامل ہوگا۔ ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے ۔ آمین ثم آمین۔ 209 " مقیت " کا معنیٰ و مطلب ؟ : " مقیت " اقاتہ سے ماخوذ ہے جسکے معنیٰ قدرت رکھنے کے ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہ لفظ اصل میں قوت سے ماخوذ ہے جس کے معنی قوت و طاقت کے ہیں۔ چناچہ کہا جاتا ہے " اَقََاتَ عَلٰی اَمْرٍ ۔ اَیْ : اقْتَدَر عَلَیْہ " یعنی وہ اس کام پر قادر ہوگیا، اور اس نے اس پر قابو پالیا وغیرہ۔ (محاسن التاویل وغیرہ) ۔ نیز اس کے معنیٰ محافظ و نگہبان کے بھی آتے ہیں۔ سو وہ قادر مطلق دیکھتا ہے کہ کون کیا کرتا ہے اور کن حالات میں اور کس نیت و ارادہ سے کرتا ہے۔ اسی کے مطابق وہ ہر کسی کو اس کے اس اجر وثواب سے نوازتا ہے جس کا وہ مستحق ہوتا ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو پیغمبر کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ آپ ﷺ پر ذمہ داری صرف اپنی جان کی ہے۔ آپ جنگ کے لئے خود اٹھیں اور اہل ایمان کو اس کے لئے ابھاریں۔ جس کو توفیق ہوگی وہ اٹھے گا۔ اور جو نہیں اٹھیگا اس کی ذمہ داری آپ پر نہیں۔ اللہ کے کام دوسروں پر منحصر نہیں ہوتے۔ وہ خود بڑی قوت وقدرت والا ہے۔ وہ مخالفوں کو عبرتناک سزا دینے پر بھی پوری قدرت رکھتا ہے۔ اور آپ کے ان مخلص ساتھیوں کے اندر ہی ایسی قوت پیدا کر دیگا کہ اس سے کفر کا زور ٹوٹ جائے گا ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ پس بھروسہ و اعتماد ہمیشہ اسی وحدہ لا شریک پر رکھنا چاہیے ۔ وباللہ التوفیق۔
Top