Tafseer-e-Madani - An-Nisaa : 86
وَ اِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْهَاۤ اَوْ رُدُّوْهَا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ حَسِیْبًا
وَاِذَا : اور جب حُيِّيْتُمْ : تمہیں دعا دے بِتَحِيَّةٍ : کسی دعا (سلام) سے فَحَيُّوْا : تو تم دعا دو بِاَحْسَنَ : بہتر مِنْھَآ : اس سے اَوْ : یا رُدُّوْھَا : وہی لوٹا دو (کہدو) اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَلٰي : پر (کا) كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز حَسِيْبًا : حساب کرنے والا
اور جب تمہیں کوئی سلام کرے کسی بھی لفظ سے تو تم اس کو اس سے بہتر لفظوں میں جواب دیا کرو، یا (کم ازکم) وہی لفظ کہہ دیا کرو کہ بیشک اللہ ہر چیز پر پورا پورا حساب رکھنے والا ہے،
210 تَحِیَّۃً کا معنی و مطلب ؟ : " تَحِیَّۃً "، " حیات " سے مشتق و ماخوذ ہے جسکے معنی زندگی کے ہیں۔ سو یہ لفظ اصل میں زندگی اور درازی عمر کی دعاء کے معنی میں آتا ہے۔ عرب پہلے بھی کہتے تھے اور آج بھی کہتے ہیں " حَیَّاک اللّٰہُ "، " خدا تمہیں زندہ رکھے، لمبی عمر دے " لیکن بعد میں یہ لفظ مطلق سلام کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ اسی لیے دین حنیف نے اس موقع پر " حیاک اللہ " کی بجائے " السلام علیکم " کی دعاء تعلیم و تلقین فرمائی جو کہ اس قدیم دعاء سے کہیں بڑھ کر اعلیٰ وارفع دعا ہے۔ کیونکہ " حیاک اللہ " میں صرف زندگی کی دعا ہے خواہ وہ زندگی کیسی ہی کیوں نہ ہو، جبکہ " السلام علیکم " میں اس سے بڑھ کر سلامتی کی دعاء ہے جو کہ زندگی اور اس کے جملہ متعلقات کو عام اور شامل ہے۔ یعنی تمہیں ہر طرح کی سلامتی نصیب ہو۔ جان کی سلامتی، ایمان کی سلامتی، مال و متاع کی سلامتی اور عزت و آبرو کی سلامتی وغیرہ وغیرہ۔ سو دین اسلام کے کسی بھی حکم و ارشاد کا کوئی متبادل نہیں ہوسکتا ۔ فالحمدللہ ۔ سو " السَّلام علیکم " کے کلمہ تحیہ کو اسلام کے ایک خاص شعار کی حیثیت حاصل ہوگی اور یہ کلمہ گو یا مومن اور کافر کے درمیان ایک علامت فارقہ بن گیا۔ جب کہ ایک شخص نے دوسرے کو " السلام علیکم " کہہ دیا اور اس نے " وعلیکم السلام " سے اس کا جواب دے دیا تو ان دونوں کے درمیان من و تو کا فرق مٹ گیا اور وہ دونوں گویا یک قلب اور دو قالب کا مصداق بن گئے۔ اور اگر اس نے جواب نہ دیا تو اس کا معنیٰ صرف یہی نہیں کہ اس نے اس کا اسلام قبول نہیں کیا بلکہ اس کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ اس نے اس کے اسلام کو بھی تسلیم نہیں کیا۔ اس طرح وہ دونوں آپس میں الگ اور ایک دوسرے سے دور ہوگئے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 211 سلام کا بہتر جواب دینے کی تعلیم و تلقین : یعنی تم دوسرے کے سلام کا جواب بہتر لفظوں سے دیا کرو۔ مثلاً اس نے کہا " السلام علیکم " تو آپ اس کے جواب میں " وَرَحْمَۃُ اللّٰہ " کا اضافہ کردیں۔ اور اگر اس نے " ورحمتہ اللہ " بھی کہہ دیا تو آپ اس کے جواب میں " وبرکاتہ " کا اضافہ کریں۔ جیسا کہ احادیث صحیحہ میں اس کی تصریح وارد ہے۔ مثلاً حدیث عمران بن حصین ؓ فی مسند امام احمد ج 4 ص 439، سنن ابوداؤد، کتاب الادب، باب کیف السلام، سنن ترمذی، کتاب الاستئذان و الآداب، باب ماذکر فی فضل السلام وغیرہ (محاسن التاویل، معارف القرآن وغیرہ) ۔ راقم آثم نے عرصہ قبل اس موضوع پر " اسلام اور سلام " کے نام سے ایک مستقل رسالہ ترتیب دیا تھا، جبکہ راقم آثم دارالعلوم تعلیم القرآن پلندری آزاد کشمیر میں مدرس تھا، لیکن افسوس کہ وہ اب تک طبع ہو کر منظر عام پر نہیں آسکا ۔ فَاللّٰہُ نَسْأَلُ التَّوْفِیْقَ وَالسِّدَادَ وَالْقُبُوْلَ ۔ بہرکیف اہل ایمان سے مطلوب ہے کہ وہ دوسروں کے سلام کا جواب بہتر لفظوں سے دیں کہ یہی تقاضا ہے مکارم اخلاق اور محاسن آداب کا ۔ وباللہ التوفیق ۔ بہرکیف اسلام کے کلمہ تحیہ کی چونکہ دین حنیف کے اندر ایک خاص اہمیت اور عظمت شان ہے اسی بناء پر مسلمانوں کو تنبیہ فرمائی گئی کہ جب تمہیں کوئی شخص تحیہ وسلام سے مخاطب کرے تو اس کا اسلامی اور معاشرتی حق یہ ہے کہ تم اس کو اس کے سلام و تحیہ کا بہتر جواب دو ۔ نہیں تو کم از کم اسی کے الفاظ کو اس کی طرف لوٹا دو ۔ 212 اللہ تعالیٰ کے محاسبے کی تذکیر و یاددہانی : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ ہر چیز کا پورا حساب رکھنے والا ہے : تاکہ روز جزا تم کو تمہارے کئے کرائے کا پورا پورا بدلہ دے۔ اس لئے تم ہمیشہ یہ دیکھو اور اسی کو پیش نظر رکھو کہ تم نے وہاں کیلئے کیا جمع کیا ہے۔ اور سلام کا جواب بہتر انداز میں دیا کرو تاکہ زیادہ سے زیادہ نیکیاں کما سکو اور اس کا اجر پا سکو اور ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا کرو کہ ہمارا معاملہ اپنے اس رب ذوالجلال کے ساتھ صحیح اور درست رہے، جسکے حضور حاضر ہو کر ہم نے اپنے زندگی بھر کے کیے کرائے کا جواب دینا اور پھل پانا ہے۔ اس کی رضا و خوشنودی نصیب ہوجائے تو سب کام بن گیا ۔ وباللہ التوفیق ۔ الغرض یہ سلام اور اس کا جواب کوئی رسمی نوعیت کی چیز نہیں بلکہ یہ اسلامی معاشرے میں فصل و وصل کی ایک اہم بنیاد ہے۔ اسی لئے قرآن حکیم نے اس کو یہاں پر اس اہمیت کے ساتھ بیان فرمایا ہے اور یہ تنبیہ بھی فرما دی کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا حساب کرنے والا ہے اور قیامت کے روز ہر کسی نے اس کے حضور پہنچ کر اپنے کئے کرائے کی جواب دہی کرنی ہے۔ سو اللہ تعالیٰ کے یہاں کسی کا بھی کوئی عمل ضائع نہیں جائے گا ۔ وباللّٰہ التوفیق لما یُحِبُّ وَیُرِیْد -
Top