Tafseer-e-Madani - An-Nisaa : 88
فَمَا لَكُمْ فِی الْمُنٰفِقِیْنَ فِئَتَیْنِ وَ اللّٰهُ اَرْكَسَهُمْ بِمَا كَسَبُوْا١ؕ اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَهْدُوْا مَنْ اَضَلَّ اللّٰهُ١ؕ وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ سَبِیْلًا
فَمَا لَكُمْ : سو کیا ہوا تمہیں فِي الْمُنٰفِقِيْنَ : منافقین کے بارے میں فِئَتَيْنِ : دو فریق وَاللّٰهُ : اور اللہ اَرْكَسَھُمْ : انہیں الٹ دیا (اوندھا کردیا) بِمَا كَسَبُوْا : اس کے سبب جو انہوں نے کمایا (کیا) اَتُرِيْدُوْنَ : کیا تم چاہتے ہو اَنْ تَهْدُوْا : کہ راہ پر لاؤ مَنْ : جو۔ جس اَضَلَّ : گمراہ کیا اللّٰهُ : اللہ وَمَنْ : اور جو۔ جس يُّضْلِلِ : گمراہ کرے اللّٰهُ : اللہ فَلَنْ تَجِدَ : پس تم ہرگز نہ پاؤ گے لَهٗ : اس کے لیے سَبِيْلًا : کوئی راہ
پھر تمہیں کیا ہوگیا (اے مسلمانوں ! ) کہ تم ان منافقوں کے بارے میں دو گروہ ہو رہے ہو ؟ حالانکہ اللہ نے ان کو اوندھا کردیا ان کے اپنے کرتوتوں کے باعث کیا تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ تم ان کو ہدایت دو جن کو اللہ نے گمراہی میں ڈال دیا ہے ؟ اور (امر واقعہ یہ ہے کہ) جس کو اللہ گمراہ کردے اس کے لیے تم کوئی راستہ نہ پاسکو گے،2
215 منافقوں کے ایک گروہ کے کفر و نفاق کا اعلان و اظہار : سو مسلمانوں کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگوں کو کیا ہوگیا کہ تم منافقوں کے بارے میں دو گروہ ہو رہے ہو جن کا کفر و نفاق دلائل و قرائن سے ثابت اور واضح ہوگیا ہے۔ اور جو ایمان لانے کی بجائے الٹا یہ چاہتے ہیں کہ تم کو بھی نور ایمان و یقین سے محروم کرکے راہ حق و ہدایت سے پھیر دیں۔ اور اس طرح تم بھی ہلاکت و تباہی کی اسی راہ پر چلو جس پر یہ چل رہے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ استفہام یہاں پر تنبیہ و توبیخ کے لئے ہے۔ یعنی تم کو اے ایمان والو کیا ہوگیا ہے کہ تم ان منافقوں کے بارے میں دو گروہوں میں بٹ رہے ہو۔ ایک ان کی حمایت اور ان کا دفاع کرتا ہے اور دوسرا ان کا دشمن ہے (محاسن التاویل وغیرہ) ۔ 216 منافقوں کے ایک گروہ سے متعلق اختلاف کا ذکر : سو اس سے منافقوں کے ایگ گروہ کے بارے میں مسلمانوں کے درمیان اختلاف رائے کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ ایک گروہ ان کی حمایت کرتا اور انہیں مسلمانوں کی طرح سمجھتا ہے، اور دوسرا اس کے برعکس ہے، جیسا کہ مختلف روایات میں منافقین کے مختلف گروہوں کے بارے میں وارد ہے، چناچہ بعض حضرات نے کہا کہ اس ارشاد کا تعلق عبداللہ بن ابی اور اس کے گروپ سے ہے جو کہ غزؤہ احد کے موقع پر دھوکہ دے کر راستے سے واپس آگئے تھے۔ اور بعض نے کہا کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ گئے تھے اور کہا تھا کہ ہم ہجرت کرکے آئے ہیں، لیکن کچھ دنوں کے بعد انہوں نے آب و ہوا کی ناموافقت کا بہانہ بناکر واپسی کی اجازت مانگی اور مکہ واپس پہنچ کر وہ لوگ مشرکوں سے مل گئے۔ اور حضور ﷺ کو خط لکھا کہ ہم آپ ﷺ کے دین پر اور آپ کے ساتھ ہیں۔ تو ان کے بارے میں اہل ایمان میں اختلاف پیدا ہوگیا۔ اور بعض نے اس کا مصداق ان لوگوں کو قرار دیا جو بغیر کسی معقول عذر کے محض اپنے رشتوں اور قرابتوں کی بناء پر مدینہ کی طرف ہجرت سے گریزاں تھے۔ سو ایسے منافقین کے بارے میں اختلاف میں پڑنے کی ضرورت نہیں کہ یہ لوگ بہرحال منافق ہیں ۔ والعیاذ باللہ جل وعلا - 217 بدکرداری کی ایک نقد سزا، حق سے محرومی ۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ایسے لوگوں کو اوندھا کردیا گیا ان کے اپنے کرتوتوں کے باعث جس کے نتیجے میں یہ لوگ راہ ِحق و صواب سے بھٹک گئے اور ایمان و یقین کی فرحت بخش اور حیات آفریں لذت و حلاوت سے محروم ہوگئے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو انسان کو اس کی بدعملیوں خاص کر اس کے خبث باطن کی ایک سزا یہ ملتی ہے کہ اس کی مت مار دی جاتی ہے اور وہ نور حق سے محروم ہو کر اوندھا ہوجاتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ ” ِرکس " کے معنی الٹنے اور پلٹ دینے کے ہیں " اَرْکَسَہ " کے معنیٰ ہوتے ہیں اس کو اوندھا اور الٹا کردیا۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان لوگوں نے جب اسلام کی طرف قدم بڑھانے کے بعد اپنا قدم پیچھے ہٹا لیا تو اس کے نتیجے میں ان کو اس کفر میں دھکیل دیا گیا جس سے یہ نکلے تھے۔ سو ایسے لوگ جو اللہ تعالیٰ کی لعنت کی زد میں آچکے ہوں ان کو راہ راست پر لانا کسی کے بس اور اختیار میں نہیں۔ اب یہ لوگ راہ راست پر نہیں آسکتے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 218 جس کو اللہ گمراہ کردے اس کو کوئی راہ راست پر نہیں لاسکتا : سو ارشاد فرمایا گیا کہ کیا تم لوگ ان کو راہ راست پر لانا چاہتے ہو جن کو اللہ نے گمراہ کردیا ؟ ان کی اپنی بدباطنی کی بنا پر۔ استفہام انکاری ہے، یعنی ایسے نہیں ہوسکتا کہ جس کو اللہ گمراہی میں ڈال دے تم اس کو راہ راست پر لا سکو۔ سو جس کو اللہ گمراہی کے گڑھے میں ڈال دے اس کو راہ راست پر لانا کسی کے بس میں نہیں ہوسکتا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو ایسے لوگوں کے بارے فرمایا گیا کہ ایسوں کو راہ راست نہیں مل سکتی۔ کوئی لاکھ چاہے ایسوں کو راہ راست ملنا ممکن نہیں۔ اور ہدایت پر آنا تو کجا ان لوگوں کا تو حال یہ ہے کہ یہ تم لوگوں کو بھی اسی کفر میں لے جانا چاہتے ہیں جس کے اندر شروع میں یہ خود ڈوبے ہوئے ہیں۔ پس جب تک یہ لوگ ہجرت نہ کریں اس وقت تک تم ان سے کوئی تعلق نہ رکھو۔ یہ ہجرت ہی ان کے ایمان کے لئے کسوٹی ہے۔ اگر یہ اس سے گریز کرتے ہیں پھر تم ان کو دشمن اور دشمنوں کا ساتھی سمجھو اور ان کو جہاں پاؤ گرفتار اور قتل کرو ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 219 ہدایت و ضلالت کا معاملہ اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے : پس جس کو اللہ گمراہ کردے اس کیلئے کوئی راستہ ممکن نہیں سو ارشاد فرمایا گیا کہ جس کو اللہ گمراہ کر دے اس کے اپنے سوء اختیار اور خبث باطن کی بنا پر تو تم اس کے لیے کوئی راستہ نہ پا سکو گے۔ کوئی ایسا راستہ جو اسے حق اور ہدایت کی طرف لے جاسکے، کہ ہدایت تو بہرحال اللہ ہی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے۔ اور اس کی طرف سے ان لوگوں کو محروم کردیا گیا۔ ان کے اپنے سوئ اختیار اور بدنیتی کی بنا پر۔ سو ایسے لوگوں کو مومن سمجھنا اور مومن کہنا درست نہیں۔ اور نہ ہی ان کے بارے میں حسن ظن کی گنجائش ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ کہ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی اس سنت کی زد میں آئے ہوئے ہوتے ہیں جس کے مطابق ایسوں کے لئے حق و ہدایت کی کوئی راہ ممکن نہیں رہتی ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو اس سے یہ امر پھر واضح ہوجاتا ہے کہ ہدایت وغوایت اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے۔ وہ جس کو چاہے ہدایت سے نوازے اور جس کو چاہے گمراہی میں ڈال دے۔ کیونکہ ہدایت وغوایت کا اصل تعلق انسان کے اپنے قلب و باطن سے ہے کہ اس کا دار و مدار انسان کی طلب صادق پر ہے اور اس کو اللہ ہی جانتا ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ -
Top