Tafseer-e-Madani - An-Nisaa : 93
وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا
وَمَنْ : اور جو کوئی يَّقْتُلْ : قتل کردے مُؤْمِنًا : کسی مسلمان کو مُّتَعَمِّدًا : دانستہ (قصداً ) فَجَزَآؤُهٗ : تو اس کی سزا جَهَنَّمُ : جہنم خٰلِدًا : ہمیشہ رہے گا فِيْھَا : اس میں وَغَضِبَ اللّٰهُ : اور اللہ کا غضب عَلَيْهِ : اس پر وَلَعَنَهٗ : اور اس کی لعنت وَاَعَدَّ لَهٗ : اور اس کے لیے تیار کر رکھا ہے عَذَابًا : عذاب عَظِيْمًا : بڑا
اور جو کوئی قتل کرے گا کسی مومن کو جان بوجھ کر تو اس کی اصل سزا جہنم ہے جس میں اسے ہمیشہ رہنا ہوگا اس پر اللہ کا غضب ہوا اور اس کی لعنت (وپھٹکار) بھی، اور اللہ نے اس کے لئے تیار کر رکھا ہے ایک بڑا ہی ہولناک عذاب2
245 قاتل متعمد کی سزا ہمیشہ کا جہنم ۔ والعیاذ باللہ : ۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ جس نے کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کیا اس کی سزا جہنم ہے جس میں اس کو ہمیشہ کے لیے رہنا ہوگا۔ سو یہ اس کے اس فعل شنیع اور سنگین جرم کی اصل سزا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا کہ یہ اس جرم کی اصل سزا ہے۔ اگر اللہ اس کو یہ سزا دے " ھٰذَا جَزَائُ ہ اِنْ جاَزَاہُ- (ابن کثیر، معارف وغیرہ) ۔ یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کو یہ سزا ضرور دے گا (المراغی وغیرہ) ۔ بلکہ سچی توبہ پر بغیر سزا بھگتنے کے، دوسرے کبیرہ گناہوں کی طرح وہ اپنے فضل و کرم سے اس کے اس گناہ کو بھی معاف فرما دے گا۔ جیسا کہ دوسری بہت سی نصوص کریمہ سے ثابت ہے کہ مومن ہمیشہ کیلئے دوزخ میں نہیں رہے گا۔ اس لئے جمہور علماء کا کہنا ہے کہ اس آیت کریمہ میں یا تو اصل سزا کا ذکر ہے۔ جیسا کہ ابھی ذکر ہوا۔ یا اس سے مراد مکث طویل ہے نہ کہ خلود و دوام۔ اور یا یہ محمول ہے مستحل قتل پر۔ یعنی یہ سزا اس شخص کیلئے ہے جس نے قتل مسلم کو حلال سمجھ کر کیا ہو کہ اس سے وہ کافر ہوجائے گا اور کافر کے لئے بہرکیف خلودفی النار ہی ہے۔ (ابن کثیر، محاسن التاویل، جامع البیان، صفوۃ البیان، مراغی، خازن، اور معارف وغیرہ) ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ قتل مسلم کا جرم کس قدر ہولناک اور کتنا سنگین جرم ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top