Tafseer-e-Madani - Al-Ghaafir : 74
مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ؕ قَالُوْا ضَلُّوْا عَنَّا بَلْ لَّمْ نَكُنْ نَّدْعُوْا مِنْ قَبْلُ شَیْئًا١ؕ كَذٰلِكَ یُضِلُّ اللّٰهُ الْكٰفِرِیْنَ
مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۭ : اللہ کے سوا قَالُوْا : وہ کہیں گے ضَلُّوْا : وہ گم ہوگئے عَنَّا : ہم سے بَلْ لَّمْ : بلکہ نہیں نَكُنْ نَّدْعُوْا : پکارتے تھے ہم مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل شَيْئًا ۭ : کوئی چیز كَذٰلِكَ : اسی طرح يُضِلُّ : گمراہ کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ الْكٰفِرِيْنَ : کافروں کو
اللہ کے سوا ؟2 وہ کہیں گے کہ وہ سب کھو گئے ہم سے بلکہ ہم تو اس سے پہلے کسی چیز کو (سرے سے) پکارتے ہی نہیں تھے اسی طرح اللہ گمراہی (کے گڑھے) میں ڈالتا ہے کافروں کو3
135 مستکبرین کی تذلیل و تحقیر کا ایک منظر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " پھر ان سے کہا جائے گا کہ کہاں ہیں وہ جن کو تم لوگ شریک ٹھہرایا کرتے تھے اللہ وحدہ لا شریک کا ؟ "۔ سو یہ ان سے ان کی مزید تذلیل و توبیخ کے لئے کہا جائے گا۔ یعنی ان کو زیادہ رسوا کرنے کے لئے ان سے کہا جائے گا کہ کہاں ہیں تمہارے وہ معبود جن کو تم لوگوں نے خدائی اختیارات میں شریک وسہیم بنا رکھا تھا اور تم لوگ کہا کرتے تھے کہ یہ ہمیں چھڑا اور بچا لیں گے۔ آج وہ تمہاری مدد کیوں نہیں کر رہے ؟ ان کو بلاتے کیوں نہیں ؟ کہ وہ اس مشکل وقت میں تمہارے کام آئیں اور تمہیں اس عذاب سے رہائی دلائیں۔ { من دون اللہ } یہاں پر مدِّمقابل کے معنیٰ میں ہے۔ اور اس معنیٰ میں یہ لفظ کئی جگہ استعمال ہوتا ہے۔ 136 منکرین و مستکبرین کی یاس و حسرت کا ایک منظر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس سوال کے جواب میں وہ لوگ کہیں گے کہ وہ سب کھوگئے ہم سے۔ یعنی ان سے ہم نے جو توقعات وابستہ کر رکھی تھیں وہ پوری نہ ہوئیں۔ اور آج کے اس مشکل وقت میں وہ ہمارے کچھ کام نہ آسکے۔ (جامع وغیرہ) ۔ سو بڑے دھوکے میں تھے جو انکو شریک ٹھہرا رہے تھے اور قطعی طور پر بےبنیاد تھیں طرح طرح کی وہ توقعات جو ان لوگوں نے ان کے ساتھ وابستہ کر رکھی تھیں۔ دنیا کے اس دار الغرور سے گزرنے کے بعد کشف حقائق کا وہ جہان غیب جب سامنے آئے گا اور سب حقائق آشکارا ہوجائیں گے تو اس وقت ان کی یاس و حسرت کا کوئی کنارہ نہیں ہوگا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ اپنی پناہ میں رکھے ۔ آمین ثم آمین۔ 137 منکرین و مستکبرین کی حواس باختگی کا ایک منظر : سو ان کی اس دن کی اس بدحواسی کے ذکر کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ وہ اپنے شرک کا انکار کرتے ہوئے کہیں گے کہ " نہیں بلکہ ہم تو اس سے پہلے کسی چیز کو پکارتے ہی نہیں تھے "۔ یعنی اپنے شرک کا وہ لوگ سرے سے ہی انکار کردیں گے۔ جیسا کہ دوسری جگہ ان کا یہ انکار اس طرح نقل فرمایا گیا ہے ۔ { وَاللّٰہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِیْنَ } ۔ (الانعام : 23) یعنی " قسم ہے اللہ کی جو کہ ہمارا رب ہے ہم مشرک تھے ہی نہیں " سو یہ لوگ وہاں پر اللہ کی قسم کھا کر کہیں گے کہ ہم مشرک تھے ہی نہیں اور اس طرح یہ لوگ اپنے شرک کا صاف وصریح طور پر انکار کریں گے۔ یا یہ کنایہ ہے ضیاع اور بطلان سے۔ یعنی ہماری وہ عبادت اور غیر اللہ کی پوجا و پکار ہمیں کچھ کام نہ دے سکی۔ جیسا کہ کسی کی محنت ضائع چلی جائے تو وہ کہتا ہے میں نے کچھ کیا ہی نہیں۔ یعنی یہ کرنا نہ کرنے کے برابر ہے۔ (جامع البیان وغیرہ) ۔ بہرکیف اول و ہلہ میں وہ اقرار کریں گے کہ ہم نے کچھ شریک ٹھہرائے تھے لیکن آج وہ ہم سے کھوگئے۔ لیکن جب وہ دیکھیں گے انکو شریک ٹھہرانے کی پاداش ہی میں وہ اس انجام کو پہنچے تو وہ اسکا انکار کردیں گے کہ تاکہ شاید اس طرح ان کی رہائی اور گلو خلاصی کی کوئی صورت نکل آئے مگر کہاں اور کیونکر ؟ ۔ { اَنّٰی لَہُمُ التَّنَاوُشُ مِنْ مَّکَانٍ بَعِیْدٍ } ۔ سو قیامت کے روز مشرکین پر ایسی بدحواسی طاری ہوگی کہ وہ ایک ہی سانس میں اپنے معبودوں کا اقرار بھی کریں گے اور انکار بھی۔ جیسا کہ سورة انعام کی آیت 23 اور 24 میں بھی گزر چکا ہے ۔ والعیاذ باللہ جل وعلا - 138 عناد و ہٹ دھرمی کا نتیجہ محرومی ۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا " اسی طرح اللہ گمراہی میں ڈالتا ہے کافروں کو "۔ یعنی اللہ پاک کا قانون اور ضابطہ یہی ہے کہ جو کوئی اپنے کفر و باطل پر اڑ جاتا ہے وہ اسی طرح گمراہی کا شکار ہوجاتا ہے کہ اس کی مت مار دی جاتی ہے اور اس کو سیدھی اور صاف بات بھی الٹی اور ٹیڑھی نظر آنے لگتی ہے۔ اور اس طرح وہ حق و ہدایت کے نور مبین اور صراط مستقیم سے محروم ہو کر کفر و باطل کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں گھر جاتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو ایسوں کو ہدایت کیسے ملے جبکہ نور ایمان و یقین سے سرفرازی اور بہرہ مندی کیلئے اولین شرط اخلاص نیت اور طلب صادق ہے۔ سو عناد و ہٹ دھرمی کا نتیجہ محرومی ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ ہمیشہ اپنی پناہ میں رکھے ۔ آمین۔
Top