Tafseer-e-Madani - Al-Ghaafir : 82
اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١ؕ كَانُوْۤا اَكْثَرَ مِنْهُمْ وَ اَشَدَّ قُوَّةً وَّ اٰثَارًا فِی الْاَرْضِ فَمَاۤ اَغْنٰى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ
اَفَلَمْ : پس کیا نہیں يَسِيْرُوْا : وہ چلے پھرے فِي الْاَرْضِ : زمین میں فَيَنْظُرُوْا : تو وہ دیکھتے كَيْفَ كَانَ : کیسا ہوا عَاقِبَةُ الَّذِيْنَ : انجام ان لوگوں کا جو مِنْ قَبْلِهِمْ ۭ : ان سے قبل كَانُوْٓا اَكْثَرَ : وہ زیادہ تھے مِنْهُمْ : ان سے وَاَشَدَّ : اور بہت زیادہ قُوَّةً وَّاٰثَارًا : قوت اور آثار فِي الْاَرْضِ : زمین میں فَمَآ اَغْنٰى : سو نہ کام آیا عَنْهُمْ : ان کے مَّا : جو كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ : وہ کماتے (کرتے) تھے
تو کیا یہ لوگ چلے پھرے نہیں (عبرتوں بھری) اس زمین میں تاکہ یہ خود دیکھ لیتے کہ کیسا ہوا انجام ان لوگوں کا جو ان سے پہلے تھے وہ (گنتی اور) تعداد کے لحاظ سے بھی ان سے کہیں زیادہ تھے اور قوت (و طاقت) کے اعتبار سے بھی وہ ان سے کہیں زیادہ سخت تھے اور زمین میں چھوڑے جانے والے آثار (اور نشانات) کے اعتبار سے بھی وہ ان سے کہیں بڑھ کر تھے پھر (وقت پڑنے پر) ان کے کچھ کام نہ آسکی ان کی وہ کمائی جو وہ کرتے رہے تھے
154 تاریخ سے درس عبرت لینے کی ہدایت : سو اس ارشاد سے گزشتہ قوموں کے انجام اور ان کی تواریخ سے سبق لینے کی ہدایت و تلقین فرمائی گئی ہے۔ پس تم لوگ اپنے کئے کرایے کے اس نتیجہ و انجام سے بچنے کی فکر کرو اور اپنے رویہ و سلوک کی اصلاح کرلو قبل اس سے کہ حیات دنیا کی یہ فرصت محدود و مختصر جو آج تمہیں میسر ہے تمہارے ہاتھ سے نکل جائے۔ سو اس سے معلوم ہوا کہ آثار قدیمہ اور کھنڈرات کو پکنک اور تفریح کے طور پر نہیں بلکہ عبرت پذیری کے لئے دیکھنا چاہیئے۔ مگر افسوس کہ آج دنیا لاکھوں کروڑوں ڈالر خرچ کرکے آثار قدیمہ کی حفاظت کے لئے طرح طرح کے جتن کرنے کے باوجود سبق سیکھنے کے اور درس عبرت لینے کے اس اصل مقصد سے غافل ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ ادھر اہل بدعت کے ایک بڑے صاحب کو یہاں پر یہ قیاس سوجھا کہ جس طرح تاریخی کھنڈرات کو عبرت پذیری کے لئے دیکھنا اور اس کے لئے سفر کرنا محمود و مطلوب ہے اسی طرح بزرگوں کے مزاروں پر بھی حاضری کے لئے سفر کرنا چاہیئے ۔ سبحان اللہ ! ۔ کیا کہنے اس استخراج و استنباط کے۔ بھلا اللہ کے عذاب سے تباہ شدہ اقوام کے کھنڈارت پر بزرگان دین کے مزارات کو قیاس کرنے کی کیا تک ہے ؟ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کھجور پر چڑھے ہوئے شخص کو کنویں میں گرے ہوئے انسان پر قیاس کیا جائے۔ بھلا کیا جوڑ ہے ان دونوں میں ؟ حیرت ہوتی ہے کہ یہ لوگ کس دیدہ دلیری سے اللہ کی کتاب میں اس طرح بےباکانہ قلم چلاتے ہیں۔ کیا بزرگان کے مزارات ہلاک شدہ قوموں کے کھنڈرات کی طرح ہیں ؟ کیا یہ مزارات ان حضرات نے خود بنائے تھے جو تم ان کو ان کے آثار قرار دیتے ہو ؟ ۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے حفظ وامان میں رکھے ۔ آمین۔
Top