Tafseer-e-Madani - Az-Zukhruf : 11
وَ الَّذِیْ نَزَّلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءًۢ بِقَدَرٍ١ۚ فَاَنْشَرْنَا بِهٖ بَلْدَةً مَّیْتًا١ۚ كَذٰلِكَ تُخْرَجُوْنَ
وَالَّذِيْ نَزَّلَ : اور وہی ذات ہے جس نے نازل کیا مِنَ السَّمَآءِ : آسمان سے مَآءًۢ : پانی بِقَدَرٍ : ساتھ اندازے کے فَاَنْشَرْنَا بِهٖ : پھر زندہ کیا ہم نے ساتھ اس کے بَلْدَةً مَّيْتًا : مردہ زمین کو كَذٰلِكَ : اسی طرح تُخْرَجُوْنَ : تم نکالو جاؤ گے
اور جس نے اتارا آسمان سے پانی ایک خاص اندازے کے ساتھ پھر جلا اٹھایا ہم نے اس کے ذریعے مردہ (اور ویران پڑی) زمین کو اسی طرح نکالا جائے گا تم لوگوں کو (تمہاری قبروں سے)
12 پانی کی نعمت میں غور و فکر کی دعوت و تحریک : سو ارشاد فرمایا گیا " اور اس نے آسمان سے پانی اتارا ایک خاص اندازے کے ساتھ "۔ یعنی تمہاری ضروریات و حاجات کے عین مطابق۔ نہ اتنا کم کہ تمہاری ضرورتوں کے لئے کفایت نہ کرسکے اور نہ اتنا زیادہ کہ تمہیں غرق کر دے اور طوفان نوح کی طرح تمہاری ہلاکت و بربادی کا باعث بن جائے ۔ فالحمد للّٰہِ رَبِّ العالمین ۔ سو آسمان سے پانی کے اس جوہر حیات آفریں کا اس طرح اترنا اور ایک نہایت ہی معقول اور مناسب اندازے اور مقدار میں نازل ہونا کوئی بخت و اتفاق یا محض ہوا اور موسمی حالات کا نتیجہ نہیں۔ بلکہ یہ ایک خدائے عزیز وعلیم اور قدیر و حکیم کی تقدیر اور اس کی نہایت ہی پر حکمت منصوبہ بندی کا نتیجہ وثمرہ ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو یہ کتنی بےانصافی اور ناقدری ہے کہ انسان ظواہر و مظاہر میں اٹک کر اور الجھ کر اسی خدائے رحمن و رحیم، عزیز وعلیم اور خبیر و قدیر کو بھول جائے اور اس کی بجائے اس کی اس پر حکمت کائنات کے مختلف مظاہر ہی کو پوجنے لگے۔ کسی نے سورج کو اپنا معبود بنا لیا اور کسی نے جل پوجا کے نام سے پانی کی پوجا کے ظلم کا ارتکاب کیا اور کسی نے کسی اور ایری غیری مخلوق کی پوجا کی ذلت اٹھائی اور اپنی بربادی کا سامان کیا ۔ والعیاذ باللہ العظیم من کل زیغ و ضلال وسوء و انحراف۔ اللہ زیغ وضلال کی ہر شائبے سے ہمیشہ محفوظ اور اپنی پناہ میں رکھے ۔ آمین۔ 13 مردہ زمین کو زندہ کرنے میں سامان غور و فکر : سو اس سے پانی کے ذریعے مردہ زمین کے زندہ کرنے کے عمل میں غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ " پھر اسی پانی کے ذریعے ہم ہی نے جلا اٹھایا مردہ ۔ و ویران ۔ پڑی زمین کو "۔ اپنی قدرت کاملہ، حکمت بالغہ اور عنایت شاملہ سے۔ تو جو خالق کل اور مالک مطلق تمہاری جسمانی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے اس طرح ظاہری اور حسی بارش کا انتظام فرماتا ہے اور اس کے ذریعے وہ مردہ پڑی زمین کو زندہ فرماتا ہے تو پھر یہ کس طرح ممکن ہوسکتا ہے کہ وہ تمہاری روحانی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے ہدایت و ارشاد کی معنوی اور روحانی بارش کا کوئی انتظام نہ فرمائے ؟ اور تمہارے دلوں کی کھیتیوں کی سرسبزی و شادابی کا بندوبست نہ کرے ؟ جبکہ جسم و جان کے اس مرکب میں اصل چیز تو قلب و روح ہی ہے۔ جسم تو بس اس کے لئے ایک سواری اور مرکب ہے۔ سو اس ربِّ رحمن و رحیم نے تمہاری ہدایت و راہنمائی کیلئے نہایت ہی عظیم الشان انتظام فرمایا ہے کہ ایک طرف تو اس نے تمہارے سامنے کائنات کی اس کھلی کتاب کو نہایت ہی پر حکمت طریقے سے سجا کر رکھ دیا ہے جس میں حق اور حقیقت کو روشن کرنے والے عظیم الشان درسہائے عبرت و بصیرت ہر چہار سو پھیلائے ہیں۔ اور اس طور پر کہ وہ اپنی زبان حال سے پکار پکار کر دعوت غور و فکر دیتے ہیں۔ اور دوسری طرف تمہارے خالق ومالک ربِّ علیم و قدیر نے تمہیں عقل و بصیرت کی اس عظیم الشان اور بےمثال روشنی سے نوازا اور سرفراز فرمایا جو ایک عظیم الشان اور بےمثال روشنی ہے۔ جس سے کام لیکر تم لوگ راہ حق و ہدایت کو پا اور اپنا سکتے ہو۔ اور تیسری طرف اس نے حضرات انبیاء و رسل کی قدسی صفات ہستیوں کو تمہاری ہدایت و راہنمائی کیلئے اپنا نمائندہ اور رسول بنا کر مبعوث فرمایا اور ان پر اپنی کتابیں نازل فرمائیں جنکی آخری اور کامل شکل قرآن مجید ہے۔ جو سب کتابوں کی جامع، انکے اصولی مضامین و مطالب کی محافظ و نگہبان اور ان کی امین و پاسدار ہے۔ سو اس سب کے باوجود جو لوگ راہ حق و ہدایت سے منہ موڑتے ہیں وہ بڑے ہی محروم اور بدبخت لوگ ہیں۔ اور ان کیلئے اب کسی عذر و معذرت کی کوئی گنجائش نہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف پانی کے ذریعے زمین کو زندہ کرنے کے اس عمل میں عظیم الشان قدرت و حکمت ہے ۔ فالحمد للہ جل وعلا - 14 بعث بعد الموت کی تذکیر و یاددہانی : سو ارشاد فرمایا گیا " اور اسی طرح تم سب لوگوں کو نکالا جائے گا تمہاری قبروں سے "۔ یعنی جس طرح کہ اس مردہ زمین سے وہ طرح طرح کی نباتات کو نکالتا ہے اور تم لوگ خود اس کا برابر اور ہمیشہ مشاہدہ کرتے ہو۔ مگر غور و فکر سے کام نہیں لیتے۔ کہ جس قادر مطلق ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ کی قدرت مطلقہ اور حکمت بالغہ سے مردہ زمین اور اس کے اندر کی بیشمار مردہ چیزوں کو زندہ کرنے کا یہ کام پیہم جاری ہے آخر وہ تم کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر کے کیوں نہیں اٹھائے گا ؟۔ اور یہ کام آخر اس کیلئے کیوں کر مشکل ہوسکتا ہے ؟ سو اس طرح یہاں سے قیاس شرعی کی حجیت کا ثبوت بھی ملتا ہے کہ یہاں پر مردوں کے قبروں سے نکلنے کو زمین سے نباتات کے نکلنے پر قیاس فرمایا گیا ہے۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ جس طرح ہم پانی کے ذریعے مردہ پڑی ہوئی بےآب وگیاہ زمین کو اس طرح زندہ کردیتے ہیں کہ وہ لہلہا اٹھتی ہے۔ سو اسی طرح تم لوگوں کو مرنے اور گل سڑ جانے کے بعد دوبارہ اس زمین سے زندہ کرکے اٹھا کھڑا کیا جائے گا۔ یہاں پر یہ بھی واضح رہے کہ بارش کے ذریعے زمین کو زندہ کرنے کا یہ پہلو چونکہ خاص اہمیت کا حامل ہے اس لیے اس کو متکلم کے صیغے سے بیان فرمایا گیا ہے۔ جو اس کے اس پہلو کے اہتمام کو ظاہر کرتا ہے ۔ سبحان اللہ !۔ کیا کیا باریکیاں اور لطافتیں اور نزاکتیں اللہ تعالیٰ کے اس کلام مجید میں ہیں ۔ سبحانہ وتعالیٰ -
Top