Tafseer-e-Madani - Az-Zukhruf : 45
وَ سْئَلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُّسُلِنَاۤ اَجَعَلْنَا مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِهَةً یُّعْبَدُوْنَ۠   ۧ
وَسْئَلْ : اور پوچھ لیجئے مَنْ اَرْسَلْنَا : جس کو بھیجا ہم نے مِنْ قَبْلِكَ : آپ سے قبل مِنْ رُّسُلِنَآ : اپنے رسولوں میں سے اَجَعَلْنَا : کیا بنائے ہم نے مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ : رحمن کے سوا اٰلِهَةً : کچھ الہ يُّعْبَدُوْنَ : ان کی بندگی کی جائے
اور پوچھ لیجئے آپ ﷺ (اے پیغمبر) ہمارے ان تمام رسولوں سے جن کو ہم آپ ﷺ سے پہلے بھیج چکے ہیں کیا ہم نے (خدائے) رحمان کے سوا کچھ دوسرے ایسے معبود مقرر کئے تھے جن کی بندگی کی جائے ؟
59 مشرکین کے دعوے کی تردید : مشرکین کا کہنا تھا کہ جن معبودان باطلہ کی پوجا وہ کرتے ہیں ان کی پوجا کا حکم ان کو اللہ نے دیا ہے۔ سو انکے اس دعوے کی تردید کے لیے فرمایا گیا کہ پوچھ لو ان رسولوں سے جن کو ہم نے آپ ﷺ سے پہلے بھیجا ہے۔ کیا ہم نے خدائے رحمان کے سوا ایسے معبود بنائے ہیں جنکی پوجا کی جائے۔ یعنی ان کی قوموں اور کتابوں سے پوچھ لیجئے کہ یہ بھی درحقیقت ان انبیائے کرام ہی سے پوچھنا ہے۔ جیسا کہ اسلاف کرام کی تمام تفسیروں میں لکھا ہے۔ اور مقصود اس ارشاد سے یہ بتانا ہے کہ توحیدسب کا اجماعی عقیدہ ہے۔ تمام انبیائے کرام نے اسی کی دعوت دی۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { فَاِنْ کُنْتَ فِیْ شَکٍّ مِمِّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ فَسْئَلِ الَّذِیْنَ یَقْرَئُ وْنَ الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکَ } ۔ (یونس : 94) ۔ مگر نہ آپ ﷺ کو شک ہوا اور نہ آپ نے اس بارے کسی سے پوچھا۔ اسی لئے امام زہری، سعید بن جبیر اور ابن زید وغیرہ کا کہنا ہے کہ شب اسراء و معراج کے موقع پر سب انبیائے کرام کے مجتمع ہوجانے کے باوجود آپ نے اس بارے کسی سے کچھ نہیں پوچھا۔ کہ آپ کو اس طرح کا کوئی شک وتردد تھا ہی نہیں۔ (جامع البیان : ج 2 ص 265) ۔ سو جمہور مفسرین کرام کے نزدیک گزشتہ انبیاء ورسل سے پوچھنے سے مراد جیسا کہ ابھی اوپر باحوالہ گزرا ان رسولوں کی امتوں اور ان کی کتابوں سے پوچھنا ہے۔ اور مقصود اس سے کفار قریش اور دوسرے مشرکین کو یہ بتانا ہے کہ توحید کی جس دعوت سے تمہیں چڑ ہے اور تمہیں جس سے اچنبھا ہو رہا ہے وہ کوئی نئی اور انوکھی چیز نہیں ہے۔ بلکہ اس سے پہلے کے انبیاء و رسل بھی اسی کی دعوت دیتے آئے ہیں۔ مگر اس سب کے باوجود اہل بدعت کے بعض تحریف پسندوں کا کہنا ہے کہ " یہاں انبیائے کرام سے خود پوچھنے کا حکم ہے۔ لہذا سب انبیاء وفات کے بعد بھی سنتے، پوچھتے، عالم کی سیر کرتے اور ایک دوسرے سے ملاقاتیں کرتے ہیں وغیرہ " اور اس سے بڑھ کر یہ کہ کچھ آگے چل کر یہ صاحب مزید لکھتے ہیں کہ یہاں اہل کتاب سے پوچھنا مراد ہو ہی نہیں سکتا۔ کہ انہوں نے اپنی کتابوں میں تحریف کردی تھی (محصلا) ۔ حالانکہ یہاں پر جمہور مفسرین کرام کی تصریحات کے علاوہ خود حضرت عبد اللہ بن مسعود کی قراءت اس طرح ہے ۔ " وَاسْئَلِ الَّذِیْنَ اَرْسَلْنَا اِلَیْہِمْ رُسُلَنَا " ۔ (جامع البیان، ابن کثیر، وغیرہ) ۔ اور سورة یونس کی مذکورہ بالا آیت کریمہ میں تو صاف وصریح طور پر حکم و ارشاد فرمایا جا رہا ہے ۔ { فَسْئَلِ الَّذِیْنَ یَقْرَئُ وْنَ الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکَ } ۔ مگر موصوف اس سب کے باوجود کہتے ہیں کہ اہل کتاب سے پوچھنا مراد ہو ہی نہیں سکتا۔ تو کیا یہ آیت کریمہ سے کھلا معارضہ اور کتاب الٰہی سے صریح مقابلہ اور مکابرہ نہیں ؟۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ پھر بھی دعویٰ ہے عاشق رسول اور اہل سنت ہونے کا ۔ فالی اللہ المشتکی وہو المستعان ۔ بہرکیف جمہور علماء و مفسرین کرام کا کہنا یہی ہے کہ زیر بحث آیت کریمہ میں براہ راست حضرات انبیائے کرام سے پوچھنا مراد نہیں بلکہ یہاں پر بطور مجاز ان کی امتوں کے اہل علم اور اہل ایمان سے پوچھنا اور ان کی کتب و صحف اور ان تعلیمات مقدسہ میں غور و فکر کرنا مراد ہے۔ اس لئے یہ حضرات اس کی تفسیر بالعموم اس طرح کے الفاظ کرتے ہیں ۔ " وَاسْألْ اُمُمَ مَنْ اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنْ رُّسُلِنَا " ۔ (المراغی، القرطبی، البیضاوی، المحاسن، الصفوۃ، الروح، المعارف، الجامع، ابن کثیر، ابن جریر، البحر، ابوالسعود وغیرہ وغیرہ) ۔ والحمد للہ رب العالمین ۔ اللہ تعالیٰ زیغ و ضلال کی ہر قسم اور اس کے ہر شائبے سے ہمیشہ محفوظ رکھے ۔ آمین۔ 60 خدائے رحمان کے سوا کوئی بھی اور معبود نہیں : سو ارشاد فرمایا گیا اور استفہام انکاری کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ " کیا ہم نے خدائے رحمن کے سوا کوئی اور معبود بنائے ہیں جن کی پوجا کی جائے ؟ " یعنی نہیں اور ہرگز نہیں۔ کیونکہ ہر ایک نبی نے تو توحید ہی کا درس دیا ہے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاجَْتَنِبُوالطَّاغُوْتَ } ۔ (النحل : 36) ۔ نیز ارشاد فرمایا گیا ۔ { وَمَا اَرْسًلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوحِیْٓ اِلَیْہِ اَنَّہٗ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنَا فَاَ عْبُدُوْنِ } ۔ (الانبیاء :25) ۔ پس جس توحید کی دعوت آج آپ دے رہے ہیں ۔ اے پیغمبر !۔ وہ کوئی نئی اور انوکھی چیز نہیں۔ بلکہ وہ تمام انبیائے کرام کی اجماعی اور متفق علیہ دعوت ہے۔ سو اس ارشاد سے مشرکین کے اس دعوے کی تردید فرمائی گئی ہے کہ جن کو وہ پوجتے ہیں ان کی عبادت کا حکم انکو خدا نے دیا ہے۔ سو مشرکین کے اس دعوے کی تردید میں ارشاد فرمایا گیا کہ خدا کے امر و نہی کے معلوم کرنے کا ذریعہ تو اس کے انبیاء و رسل ہی ہوسکتے ہیں، لہذا ان تمام رسولوں سے پوچھ لو جو آپ ﷺ سے پہلے آچکے ہیں کہ کیا خدا تعالیٰ نے اپنے سوا کوئی دوسرے ایسے معبود مقرر فرمائے ہیں جنکی پرستش کی جائے ؟ اور گزشتہ رسولوں سے پوچھنے کا مطلب ہے ان کی کتابوں اور صحیفوں سے پوچھنا۔ جیسا کہ ابھی اوپر گزرا ہے۔ بہرکیف اس سے واضح فرما دیا گیا ہے کہ عقیدئہ توحید جو کہ عقل و فطرت کا تقاضا ہے تمام انبیاء و رسل اور جملہ شرائع و ادیان کا متفقہ اور اجماعی عقیدہ ہے۔ اور جملہ انبیاء و رسل کرام نے ہمیشہ اسی کی دعوت دی۔
Top