Tafseer-e-Madani - Az-Zukhruf : 85
وَ تَبٰرَكَ الَّذِیْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَا١ۚ وَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ١ۚ وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ
وَتَبٰرَكَ : اور بابرکت ہے الَّذِيْ : وہ ذات لَهٗ : اس کے لیے ہے مُلْكُ السَّمٰوٰتِ : بادشاہت آسمانوں کی وَالْاَرْضِ : اور زمین کی وَمَا بَيْنَهُمَا : اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے وَعِنْدَهٗ : اور اسی کے پاس ہے عِلْمُ السَّاعَةِ : قیامت کا علم وَاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ : اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے
اور بڑی ہی برکت والی ہے وہ ذات جس کی بادشاہی (و فرمانروائی) ہے آسمانوں اور زمین میں اور اس (ساری کائنات) میں جو کہ ان دونوں کے درمیان ہے اسی کے پاس ہے قیامت کا علم اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے تم سب کو (اے لوگوں ! )
110 معبود برحق کی عظمت شان کا ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " بڑی ہی برکت والی ہے وہ ذات جس کیلئے بادشاہی ہے آسمانوں اور زمین کی اس پوری کائنات کی "۔ اور جب آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی تمام کائنات کا خالق ومالک وہی وحدہ لاشریک ہے اور اس میں حاکم و متصرف بھی وہی وحدہ لا شریک ہے۔ تو پھر اس کی عبادت و بندگی میں کوئی اس کا شریک وسہیم کس طرح ہوسکتا ہے ؟ ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ نیز آسمان اور زمین اور انکے درمیان کی اس کائنات میں جتنی عظیم الشان نعمتیں پائی جاتی ہیں ان میں غور و فکر سے کام لینے سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ کتنی ہی عظیم الشان رحمتوں اور برکتوں والا ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اور اسی سے یہ اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے حقِّ عبادت و بندگی میں کسی اور کو اس کا شریک ماننا کتنا بڑا ظلم اور کس قدر سنگین جرم ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے حفظ وامان میں رکھے ۔ آمین ثم آمین۔ 111 قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے : سو ارشاد فرمایا گیا اور اسلوب حصر وقصر کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ " اسی کے پاس ہے قیامت کا علم "۔ پس اس کے وقوع کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا الاَّ ہُوَ } ۔ سو اس حقیقت کو تاکید و تکرار کے ساتھ اور ادوات حصر کے ساتھ واضح فرمایا گیا کہ قیامت کا علم اس وحدہ لاشریک کے سوا اور کسی کو بھی نہیں۔ مگر اس کے باوجود اہل بدعت کا کہنا ہے کہ اس کا علم فلاں فلاں لوگوں کو حاصل ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ قیامت کا صحیح علم اللہ ہی کے پاس ہے۔ پس پیغمبر اگر اسکا وقت نہیں بتاسکتے تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ وہ آئے گی ہی نہیں۔ اس کا آنا تو بہرحال یقینی اور قطعی ہے کہ وہ اس کی حکمت کا تقاضا ہے۔ اور اس کے نہ آنے کی صورت میں یہ سارا کارخانہ ہست وبود ہی عبث اور بیکار قرار پاتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم - 112 سب کا رجوع اسی کی طرف : سو ارشاد فرمایا گیا اور انداز حصر و قصر کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ " اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے تم سب کو ۔ اے لوگو !- " اور وہاں پہنچ کر تم نے زندگی بھر کے اپنے کئے کرائے کا حساب دینا اور اس کا بدلہ پانا ہے۔ سو اب خود دیکھ لو کہ وہاں کیا لے کر جا رہے ہو ۔ اَللّٰہُمَّ وَفِّقْنَا لِمَا تُحِبُّ وَتَرْضٰی مِنَ الْقَوْلِ وَ الْعَمَلِ ۔ سو کوئی چاہے یا نہ چاہے، مانے یا نہ مانے، جانا سب نے بہرحال اسی کی طرف ہے کہ مرجع سب کا بہرحال وہی وحدہ لاشریک ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اس کے سوا مرجع کوئی اور نہیں کہ اس سے تم کوئی آس اور امید لگا سکو۔ سو ۔ { اِلَیْہِ تُرْجَعُوْن } ۔ کے اس مختصر سے جملے سے منکرین و مشرکین کے تمام خود ساختہ عقیدے { ہباءا منثورا } ہوجاتے ہیں۔ سو جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم مر مٹ کر یونہی ختم اور نیست و نابود ہوجائیں گے یا جو کہتے ہیں کہ ہم آواگون اور تناسخ کے ذریعے دوسرے جون میں آجائیں گے یا جو اپنے خود ساختہ معبودوں کو اپنا مرجع بنائے بیٹھے ہیں وغیرہ وغیرہ تو ایسے تمام عقائد کی ارشاد ربانی کے اس مختصر سے جملے سے بیخکنی ہوجاتی ہے اور حق اور حقیقت کو پوری طرح صاف اور واضح فرما دیا گیا ۔ فالحمد للہ رب العالمین -
Top