Tafseer-e-Madani - Al-Fath : 14
وَ لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا
وَلِلّٰهِ : اور اللہ کیلئے مُلْكُ : بادشاہت السَّمٰوٰتِ : آسمانوں کی وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین يَغْفِرُ : وہ بخش دے لِمَنْ : جس کو يَّشَآءُ : وہ چاہے وَيُعَذِّبُ : اور عذاب دے مَنْ يَّشَآءُ ۭ : جس کو وہ چاہے وَكَانَ اللّٰهُ : اور ہے اللہ غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
اور اللہ ہی کے لئے ہے بادشاہی آسمانوں اور زمین کی وہ جسے چاہے معاف فرما دے اور جسے چاہے سزا دے اور اللہ بڑا ہی بخشنے والا نہایت مہربان ہے
[ 30] اصل بادشاہی اللہ تعالیٰ ہی کی ہے، سبحانہ وتعالیٰ : چناچہ ارشاد فرمایا گیا اور حصر وقصر کے انداز میں ارشاد فرمایا گیا کہ " اللہ ہی کے لئے ہے بادشاہی آسمانوں اور زمین کی "۔ یعنی اصل اور حقیقی بادشاہی۔ سو وہ اپنی اس کائنات اور مخلوق میں جو چاہے کرے۔ کوئی نہ اس کو روک سکتا ہے اور نہ اس پر کوئی اعتراض کرسکتا ہے اور نہ اس کی گرفت و پکڑ سے کوئی کسی کو چھڑا سکتا ہے۔ اور نہ کسی کے لیے اس کی مغفرت و بخشش کو روک سکتا ہے۔ کہ آسمان و زمین کی اس ساری کائنات کا خالق ومالک اور اس میں حاکم و متصرف تنہا وہی ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ پس غلط کہتے اور شرکیہ بات کا ارتکاب کرتے ہیں وہ لوگ جو مختلف لوگوں اور مرے ہوئے بزرگوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ فلاں کی نگری اور فلاں کا علاقہ اور ایریا ہے وغیرہ وغیرہ۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ سو نہ کوئی اس کائنات کی تخلیق و ایجاد میں اس کا شریک وسہیم ہے اور نہ کوئی اس کے حکم و تصرف میں اس کا شریک ہوسکتا ہے۔ اس لئے اس کی عبادت و بندگی میں بھی اس کا کوئی شریک وسہیم نہیں ہوسکتا۔ پس ہر قسم کی عبادت و بندگی اور اس کی ہر صورت و شکل اسی وحدہٗ لاشریک کا حق اور اسی کا اختصاص ہے۔ کہ معبود برحق بہرحال وہی اور صرف وہی ہے اس کے سوا اور کوئی معبود نہ ہے نہ ہوسکتا ہے، سبحانہ وتعالیٰ ۔ پس جو لوگ اس کے سوا کسی بھی اور ہستی کیلئے عبادت و بندگی کی کوئی قسم کسی بھی شکل میں بجالاتے ہیں وہ شرک کا ارتکاب کرتے ہیں جو کہ ظلم عظیم ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم، من کل زیغ و ضلال۔ فلا معبود بحق سواہ، ولا نعبد الا ایاہ جل وعلا۔ فالحمدللہ الذی شرفنا بنعمت الایمان اللہم زدنا منہ وثبتنا علیہ، فلہ الحمد ولہ الشکر بکل حالٍ من الاحوال۔ [ 31] اللہ تعالیٰ کی بخشش اور رحمت کے اطمینان کا درس : چناچہ ارشاد فرمایا گیا " اور اللہ بڑا ہی بخشنے والا نہایت ہی مہربان ہے "۔ پس مایوسی کی کوئی وجہ نہیں۔ اس کی بخشش اور رحمت کی ہمیشہ امید رکھو کہ بڑے سے بڑا مجرم اور گناہ گار بھی اگر سچے دل سے توبہ کرکے اس کی طرف جھکے گا تو وہ اسے معاف فرما دے گا۔ اور صرف معاف ہی نہیں فرمائے گا بلکہ اپنی رحمت و عنایت سے بھی نوازے گا۔ کیونکہ وہ غفور بھی اور رحیم بھی۔ سو اس ارشاد ربانی میں ان لوگوں کیلئے بھی توبہ اور رجوع الی اللہ کی بڑی ترغیب اور تحریض ہے جو بیعت رضوان کے اس سفر میں آنحضرت ﷺ سے پیچھے رہ گئے تھے۔ اور اس کے علاوہ قیامت تک آنے والے ایسے سب ہی لوگوں کیلئے بھی ترغیب وتحریض ہے جن سے اس طرح کی کو تاہیاں سرزد ہوگئی ہوں کہ وہ صدق دل سے اس غفور و رحیم رب جلیل کی طرف رجوع کرکے اپنی مغفرت و بخشش کا سامان کرلیں۔ قبل اس سے کہ فرصت حیات ان کے ہاتھ سے نکل جائے۔ فاغفرلی وارحمنی یا ربی فانی تبت الیک واتضرع الیک من اعماق قلبی۔ بہرکیف اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ پکڑنا اور سزا دینا نہیں چاہتا بلکہ رحمت و بخشش فرمانا چاہتا ہے کہ وہ غفور و رحیم ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اس لئے لوگوں کو چاہیے کہ وہ غلط سہارے ڈھونڈنے اور حیلے بہانے اپنانے کی بجائے اس کی رحمت و رضا طلبی کی وہ راہ اختیار کریں جو اس نے اپنے بندوں کو اپنی بخشش اور رحمت سے نوازنے کیلئے اپنے پیغمبر ﷺ کے ذریعے ان کیلئے کھولی ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ کہ یہی صحت و سلامتی کی راہ، اور تقاضاء عقل و نقل ہے۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، وھو الھادی الیٰ سواء السبیل۔
Top