Tafseer-e-Madani - Al-Fath : 26
اِذْ جَعَلَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْحَمِیَّةَ حَمِیَّةَ الْجَاهِلِیَّةِ فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوٰى وَ كَانُوْۤا اَحَقَّ بِهَا وَ اَهْلَهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠   ۧ
اِذْ جَعَلَ : جب کی الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا فِيْ قُلُوْبِهِمُ : اپنے دلوں میں الْحَمِيَّةَ : ضد حَمِيَّةَ : ضد الْجَاهِلِيَّةِ : زمانۂ جاہلیت فَاَنْزَلَ اللّٰهُ : تو اللہ نے اتاری سَكِيْنَتَهٗ : اپنی تسلی عَلٰي رَسُوْلِهٖ : اپنے رسول پر وَعَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ : اور مومنوں پر وَاَلْزَمَهُمْ : اور ان پر لازم فرمادیا كَلِمَةَ : بات التَّقْوٰى : تقوی کی وَكَانُوْٓا : اور وہ تھے اَحَقَّ بِهَا : زیادہ حقدار اس کے وَاَهْلَهَا ۭ : اور اس کے اہل وَكَانَ اللّٰهُ : اور ہے اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر شے کو عَلِيْمًا : جاننے والا
(اور اسی بناء پر اس وقت) جب کہ بٹھا دی ان کافروں نے اپنے دلوں میں جاہلیت کی آڑ تو اللہ نے (اپنے فضل و کرم سے) اتار دیا اپنا سکون و اطمینان اپنے رسول اور (صدق دل سے) ایمان لانے والوں پر اور اس نے پابند کردیا ان کو (اس نازک موقع پر) تقوی (و پرہیزگاری) کی بات کا اور وہی سب سے زیادہ اس کے حقدار بھی تھے اور اس کے اہل (اور لائق) بھی اور اللہ تو ہر چیز کو پوری طرح جانتا ہے
[ 64] کافروں کی حمیت جاہلیہ کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ جب کفار اڑگئے تھے اپنی حمیت جاہلیہ پر، کہ اگر ہم نے محمد ﷺ اور ان کے ساتھیوں کو اس مرتبہ مکہ میں داخل ہونے دے دیا تو اس سے ہماری ناک کٹ جائے گی، روایات کے مطابق انہوں نے لات اور عُزَّی کی قسمیں کھا کر کہا کہ ہم ان کو کسی قیمت پر بھی مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے، سو یہ بڑا نازک موقع تھا جس سے مسلمان فوری طور پر سخت اشتعال میں آسکتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت فرمائی، جس کے نتیجے میں کوئی اشتعال انگیز نہیں پیدا ہوئی۔ بہرکیف کفار اپنی حمیت جاہلیہ ہی پر اڑے رہے حالانکہ ان پر یہ حقیقت واضح تھی کہ آنحضرت ﷺ اور آپ کے ساتھی عمرہ ادا کرنے کے لیے تشریف لائے ہیں جنگ کا آپ کا نہ کوئی ارادہ و پروگرام ہے اور نہ ہی کسی طرح کا کوئی سامان حرب و ضرب آپ کے پاس ہے، لیکن اس سب کے باوجود ان لوگوں نے آپ کو اور آپ ﷺ کے ساتھیوں کو بیت اللہ میں داخل ہونے اور اس کے حضور اپنے ہمراہ لائی ہوئی قربانیوں کو پیش کرنے کی اجازت نہ دی۔ جو کہ یہ کافروں کی حمیت جاہلیہ اور عناد اور ہٹ دھرمی کی ایک بدترین مثال تھی، والعیاذ باللّٰہ العظیم من کل زیغ و ضلال۔ [ 65] اللہ کے رسول اور ان کے ساتھیوں پر انزال سکینت کے انعام کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ نے سکون و اطمینان کی کیفیت اتار دی اپنے رسول اور اہل ایمان پر جس سے ان کے دل مطمئن ہوگئے اور انہوں نے جواباً اس طرح کی کسی حمیت [ اڑ ] کو نہیں اپنایا، ورنہ جنگ اور تباہی کے شرارے بھڑک اٹھتے، اور نہ ہی انہوں نے اللہ پاک کے کسی حکم سے سرتابی کی، اور اس کے نتیجے میں اللہ پاک کی خاص رحمتوں نے ان کو اپنی آغوش میں لے لیا، اور ان کو صلح حدیبیہ کے نام سے ہونے والی اس عظیم الشان فتح سے نواز دیا، جو کہ فتح مبین اور آئندہ کی عظیم الشان فتوحات کیلئے اساس و بنیاد تھی، سو اہل ایمان کے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ اللہ اور اس کے رسول کی سچی اطاعت و اتباع ہی ہے، اللہ نصیب فرمائے، آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ بہرکیف اس سے اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ یہ " انزال سکنیت " اللہ تعالیٰ کی ایک خاص رحمت و عنایت تھی جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور حضرات صحابہء کرام کو بطور خاص نوازا تھا، فالحمدللہ رب العالمین بکل حال من الاحوال، [ 66] حضور ﷺ کے ساتھیوں پر کلمہء تقویٰ کو لازم کردینے کی عنایت کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ نے پکا کردیا ان پر تقویٰ اور پرہیزگاری کی بات کو۔ یعنی کلمہء توحید کو جو کہ علامت و اظہار ہے دل کے اس ایمان و یقین، اور صدق و اخلاص کا جس پر تقویٰ و طہارت اور اعمال کی پوری عمارت استوار ہوتی ہے اور جس پر اللہ پاک تقویٰ و پرہیزگاری کو جمادے وہ کبھی اس سے علیحدہ نہیں ہوسکتی، پس صحابہء کرام کا ایمان و اخلاق اور تقویٰ و طہارت ہمیشہ کے لئے ثابت اور پکا ہے، اس کے علیحدہ ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں، لہٰذا جو کوئی ان کے ایمان وتقویٰ میں کیڑے نکالے گا، اور عیب لگائے گا، اس کا اپنا ایمان وتقویٰ باقی نہیں رہ سکے گا، والعیاذ باللہ اور اسی ایمان وتقویٰ کا نتیجہ و ثمر تھا کہ وہ حضرات ایسے نازک اور پُر خطر حالات میں بھی کسی قسم کے اشتعال میں آئے بغیر راہ حق و صواب پر قائم اور مستقیم رہے، اور ابلیس اور اس کے ایجنٹوں کی طرف سے جب بھی وسوسہ اندازی کی جاتی تو وہ اس کے مقابلے میں اس طرح کہہ کر اپنی رضا اور اطمینان کا اظہار کردیتے، اور اس طرح یہ وفا شعار اپنی صداقت کا اعلان و اظہار کردیتے، رضیت باللّٰہ وبا و بمحمد رسولا وبالاسلام دینا، یعنی میں راضی ہوں اللہ کے رب ہونے پر اور محمد کے رسول ہونے پر اور اسلام کے دین ہونے پر۔ پس سب کا رب اور معبود حقیقی اللہ وحدہٰ لاشریک ہی ہے جو کہ اس پوری کائنات کا خالق اور اس کا مالک حقیقی ہے، اور اس کے سچے اور آخری رسول حضرت محمد ﷺ اس کے نبی اور رسول ہیں اور سچا دین اسلام ہی ہے جس کے بغیر وصول الی اللہ کے لیے کوئی دوسرا راستہ ممکن ہی نہیں۔ سو سچے مومن کے لیے یہی سچا ایمان اور پختہ یقین ڈھارس اور اصل قوت ہے جس کے بعد اس کیلئے نہ کوئی ناکامی ہے، اور نہ کسی بات کی کوئی پرواہ اللہ نصیب فرمائے اور محض اپنے فضل و کرم سے نصیب فرمائے اور ہمیشہ اور ہر حال میں اسی پر ثابت قدم رکھے اور زیغ و ضلال اور کجی و انحراف کے ہر شائبے سے ہمیشہ محفوظ رکھے، آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ [ 67] صحابہء کرام کلمہء تقویٰ کے سب سے زیادہ حق دار اور اس کے اہل تھے : سو ارشاد فرمایا گیا اور صاف اور صریح طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ وہی اس کے لائق اور سب سے زیادہ حق دار بھی تھے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے علم میں۔ اسی لیے اس نے ان کو اپنے نبی کی صحبت اور اس کے دین کی خدمت کے لیے چنا تھا، اور ان کو صحابیت کے شرف عظیم سے مشرف فرمایا تھا، اور ان کو ؓ عنھم و رضواعنہ، کے اس منفرد اور عظیم الشان اعزاز سے نوازا تھا جو نہ اور کسی کو ملا نہ مل سکتا ہے، اور چونکہ یہ حضرات اس کے اہل اور حق دار تھے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو ان نازک اور کٹھن حالات میں بھی راہ حق و صواب پر استوار اور ثابت قدم رکھا، سو کلمہء تقویٰ پر استقامت ہر مدعی کو حاصل نہیں ہوسکتی بلکہ یہ انہی خوش نصیبوں کو حاصل ہوتی ہے جو اس کے حق دار اور اہل ہوتے ہیں اور حضرات صحابہء کرام چونکہ اس کے سب سے زیادہ حق دار اور اہل تھے اور انہوں نے اپنے عمل و کردار اور راہ حق میں اپنے ثبات و استقامت سے اپنے آپ کو اس کا اہل اور حق دار ہونا ثابت کیا تھا۔ اس لیے قدرت نے ان کو اس شرف عظیم سے نوازا تھا اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے ایمان کو ضائع نہیں کرتا جو اپنے ایمان کی قدر کرتے ہیں اور ہر قسم کے حالات میں راہ حق و صواب پر ثابت قدم رہنے کی کوشش رکھتے ہیں۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، [ 68] اللہ تعالیٰ کے کمال علم کا حوالہ و ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ ہر چیز کو پوری طرح جانتا ہے کوئی بھی چیز اور اس کا کوئی بھی پہلو اس سے مخفی و مستور نہیں رہ سکتا۔ اس لئے وہ ٹھیک ٹھیک جانتا ہے کہ کون کس کے لائق ہے، اور اسی کے مطابق وہ ہر ایک کے ساتھ وہی معاملہ فرماتا ہے جس کا وہ اہل اور مستحق ہوتا ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ سو وہ اپنے بندوں اور ان کے احوال و کو ائف سے بیخبر نہیں ہوسکتا، اور وہ ان آزمائشوں سے بھی پوری طرح واقف و آگاہ ہوتا ہے جن میں ان کو ڈالا جاتا ہے، اور ان جذبات و احساسات سے بھی آگاہ ہوتا ہے جو ان کے اندر موجزن و کار فرما ہوتے ہیں، اسی کے مطابق وہ ان سے معاملہ فرماتا ہے، پس اللہ کے جو بندے اپنے اس فرض کو پوری طرح سے نبھاتے اور ادا کرتے ہیں جو ان سے مطلوب ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان کو تنہا نہیں چھوڑتا بلکہ ہر مرحلے اور ہر موڑ پر وہ ان کی مدد کرتا اور ان کی کارسازی فرماتا ہے۔
Top