Tafseer-e-Madani - Al-Fath : 29
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ١ؕ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا١٘ سِیْمَاهُمْ فِیْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ١ؕ ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ١ۛۖۚ وَ مَثَلُهُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ١ۛ۫ۚ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْئَهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰى عَلٰى سُوْقِهٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ١ؕ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا۠   ۧ
مُحَمَّدٌ : محمد رَّسُوْلُ اللّٰهِ ۭ : اللہ کے رسول وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ مَعَهٗٓ : ان کے ساتھ اَشِدَّآءُ : بڑے سخت عَلَي الْكُفَّارِ : کافروں پر رُحَمَآءُ : رحم دل بَيْنَهُمْ : آپس میں تَرٰىهُمْ : تو انہیں دیکھے گا رُكَّعًا : رکوع کرتے سُجَّدًا : سجدہ ریز ہوتے يَّبْتَغُوْنَ : وہ تلاش کرتے ہیں فَضْلًا : فضل مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے، کا وَرِضْوَانًا ۡ : اور رضا مندی سِيْمَاهُمْ : ان کی علامت فِيْ وُجُوْهِهِمْ : ان کے چہروں میں مِّنْ : سے اَثَرِ السُّجُوْدِ ۭ : سجدوں کا اثر ذٰلِكَ : یہ مَثَلُهُمْ : انکی مثال (صفت) فِي التَّوْرٰىةِ : توریت میں وَمَثَلُهُمْ : اور انکی مثال (صفت) فِي الْاِنْجِيْلِ ۾ : انجیل میں كَزَرْعٍ : جیسے ایک کھیتی اَخْرَجَ : اس نے نکالی شَطْئَهٗ : اپنی سوئی فَاٰزَرَهٗ : پھر اسے قوی کیا فَاسْتَغْلَظَ : پھر وہ موٹی ہوئی فَاسْتَوٰى : پھر وہ کھڑی ہوگئی عَلٰي سُوْقِهٖ : اپنی جڑ (نال) پر يُعْجِبُ : وہ بھلی لگتی ہے الزُّرَّاعَ : کسان (جمع) لِيَغِيْظَ : تاکہ غصہ میں لائے بِهِمُ : ان سے الْكُفَّارَ ۭ : کافروں وَعَدَ اللّٰهُ : وعدہ کیا اللہ نے الَّذِيْنَ : ان سے جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے اعمال کئے الصّٰلِحٰتِ : اچھے مِنْهُمْ : ان میں سے مَّغْفِرَةً : مغفرت وَّاَجْرًا عَظِيْمًا : اور اجر عظیم
محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے مقابلے میں بڑے سخت اور آپس میں انتہائی مہربان ہیں تم انہیں دیکھو گے تو ان کو رکوع و سجود کرنے والے اور (ہر حال میں) اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی کی تلاش کرتے پاؤ گے ان کی نشانی (چمک رہی ہوگی) ان کے چہروں میں سجدوں کے اثرات کی بناء پر یہ ہے ان کی صفت تورات میں اور ان کی صفت انجیل میں مثل اس کھیت کے جس نے اپنی سوئی نکالی پھر اس نے اس کو قوت دی جس سے وہ موٹی ہوگئی پھر وہ سیدھی کھڑی ہوگئی اپنے تنے پر جو خوشی کا سامان بنتی ہے کاشتکاروں کے لئے تاکہ وہ جلائے ان کے ذریعے کافروں (کے دلوں) کو وعدہ فرمایا ہے اللہ نے ان میں سے ان (خوش نصیبوں) سے جو (صدق دل سے) ایمان لائے اور (اس کے مطابق) انہوں نے کام بھی نیک کئے عظیم الشان بخشش اور بہت بڑے اجر و (ثواب) کاف 2
[ 76] محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں : بغیر کسی شک وریب کے، کفار و مشرکین کے نہ ماننے سے اس امر واقع اور حقیقت صادقہ کی حقانیت و صداقت میں کسی فرق آنے کا کوئی سوال ہی نہیں، البتہ انکار کرنے والے اپنے اس انکار کی پاداش میں اس ہولناک خسارے میں مبتلا ہوں گے، جس جیسا اور کوئی خسارہ ممکن نہیں، والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ یہ اس ارشاد عالی کے معنی و مطلب کا ایک احتمال ہے جو اس پر مبنی ہے کہ، محمد رسول اللّٰہ، مبتداء و خبر ہیں اور " والذین معہٗ الخ " کلام مستانف ہے جبکہ اس کی ترکیب میں دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ یہ یہاں پر صفت اور عطف بیان کے حکم میں ہے، اور اس کی خبر آگے " اشدَّائُ علی الکفار، الخ " ہے۔ جو کہ تورات میں وارد تمثیل کی طرف اشارہ ہے، جس میں پورے زمرہ مومنین کی تصویر پیش فرمائی کی گئی ہے، اور ظاہر ہے کہ اس میں گل سرسبد کی حیثیت اللہ کے رسول ہی کو حاصل ہے، اس لئے اس ترکیب میں معنوی زور کہیں زیادہ ہے، جبکہ پہلی ترکیب کی صورت میں یہ زور نہیں پایا جاتا لہٰذا یہی دوسری ترکیب زیادہ بلیغ اور موثر ہے جیسا کہ ظاہر و واضح ہے، بہرکیف اس ارشاد ربانی میں حضرت محمد ﷺ کی رسالت اور آپ کی صداقت و حقانیت کا صاف اور صریح طور پر اعلان فرمایا گیا ہے اور یہ ایک نہایت اہم اور بنیادی حقیقت ہے، جس پر دین حق کی پوری عمارت قائم ہے، کیونکہ دین حق کی اصل بنیادیں دو ہی ہیں، ایک اللہ پاک کی وحدانیت اور دوسری اس کے رسول کی رسالت۔ اسلئے مومن صادق اپنے کلمہ توحید میں جو کہ دین حق میں داخلے کا دروازہ ہے انہی دو بنیادی اور اہم حقیقتوں کا اقرار و اعتراف کرتا ہے اور کہتا ہے ـ " لا الٰہ الا اللّٰہُ محمد رسول اللّٰہ " یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی سے سرفرازی کیلئے اس کے سوا دوسرا کوئی راستہ نہیں کہ حضرت محمد ﷺ کی رسالت پر ایمان لایا جائے اور ان کے بتائے ہوئے صراط مستقیم کی پیروی کی جائے۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، بکل حال من الاحوال، [ 77] حضرات صحابہء کرام ؓ کی دو اہم صفات کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ کفار کے مقابلے میں بڑے سخت اور آپس میں نہایت مہربان ہیں۔ جو کہ علامت اور ثبوت ہے ان کی تصلب فی الدین اور ان کی غیرت و حمایت حق کا۔ چناچہ وہ کفار کے ساتھ تو اپنے جسموں اور کپڑوں کا مس کر جانا بھی گوارہ نہیں کرتے تھے، مگر اہل ایمان کے ساتھ ملتے تو سلام اور سلامتی کی میٹھی اور پیاری دعاؤں کے علاوہ ان کے ساتھ مصافحے بھی کرتے اور معانقے بھی، کہ ان کے نزدیک دین و ایمان کا رشتہ ہی اصل اور سب رشتوں سے بڑا رشتہ تھا اور ہے، اور ان کے آپس کے اختلافات اور مشاجرات تھے، وہ بھی دراصل دینی حماس و جزیہ کی شدت کی بناء پر ہی تھے، اور یہ اختلافات چونکہ اجتہادی امور پر مبنی تھے، اس لئے ان کے باعث ان پر کسی طرح کی کوئی حرف گیری بھی جائز نہیں ہوسکتی، اور ان پر کوئی حرف گیری و نکتہ چینی آخر کس طرح جائز ہوسکتی ہے، جب کہ ان سب کو بلا استثناء اور بدوں کسی شرط و قید کے رب العلمین کی طرف سے رضا مندی کی سند اس کے کلام محکم نظام کے اندر مل چکی ہے، اور صاف وصریح طور مل چکی ہے ؓ عنھم و رضوا عنہ اور ان کے نزدیک اصل دولت چونکہ دین و ایمان ہی کی دولت ہے اس لیے اس کے بارے میں یہ بڑے سخت اور پختہ عزم والے ہیں اور ان کی اتباع و پیروی ہی صحت و سلامتی اور نجات کی راہ ہے، وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، بکل حال من الاحوال، اللہ ہم سب کو ان کی پیروی نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ [ 78] حضرات صحابہ کرام ؓ کی شان عبدیت و عبادت کا ذکر وبیان : سو اس سے حضرات صحابہ کرام ؓ کے اپنے خالق کے ساتھ ان کے رشتہ عبدیت و عبودیت کے کمال کا ذکر وبیان فرمایا گیا ہے۔ چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ تم ان رکوع و سجود کی حالت ہی میں پاؤ گے۔ یعنی تم ان کو نماز ہی کی کسی حالت میں پاؤ گے کہ یہ ان کا سب سے زیادہ محبوب اور مقدس مشغلہ تھا اور اس سے ان کا مقصود و مطلوب اپنے خالق ومالک کی رضا چاہنا ہوتا تھا اور بس۔ فرضوان اللّٰہ تعالیٰ علیہم اجمعین۔ سو اس ارشاد عالی میں ان حضرات کی توجہ الی اللہ شب بیداری اور تہجد گزاری کی تصویر پیش فرمائی گئی ہے، یعنی یہ حضرات تقویٰ و پرہیزگاری اور خدا ترسی میں ایسی امتیازی شان کے مالک ہیں کہ جو بھی کوئی ان کو دیکھے گا اس پر پہلی ہی نظر میں یہ بات واضح ہوجائے گی کہ یہ لوگ دنیا کے عام انسانوں سے یکسر مختلف ہیں، یہ ایسے قدسی صفت لوگوں کی جماعت ہے جن کی زندگی کا اصل مقصد اور حقیقی نصب العین خدا وند قدوس کی رضا طلبی ہے، چناچہ جو بھی ان کو دیکھے گا وہ ان کو کبھی رکوع میں پائے گا، اور کبھی سجود میں، یا پھر جہاد فی سبیل اللہ، میں جہاں وہ اپنے خالق ومالک کے حضور اپنی جانوں کو نذرانہ پیش کرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں، جیسا کہ روایات میں ان کے بارے میں وارد ہے کہ وہ رات کے راہب اور دن کے شیر تھے۔ رھبان باللیل اسود فی النھار [ الصلوۃ وغیرہ ] سو اس سے حضرات صحابہ کرام ؓ کے اس کمال توازن و اعتدال کو بیان فرما دیا گیا ہے جو وہ حضرت خالق جل مجدہ کے حقوق اور اس کی مخلوق کے حقوق کی ادائیگی کے سلسلے میں رکھتے تھے۔ وہ اپنے خالق کے حق عبادت و بندگی کو بھی پوری طرح ادا کرتے تھے اور اس کے حضور رکوع و سجود کی حالت میں رہتے تھے اور اس کے بندوں کے حقوق کے سلسلے میں وہ ہر کسی کے ساتھ وہ رویہ رکھتے تھے جس کا وہ اہل اور مستحق ہوتا تھا۔ اور یہی تقاضا ہے کمال عدل و انصاف اور رشد و صلاح کا، اللہ تعالیٰ ہمیں ان کی سچی محبت اور اتباع و پیروی نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین یا ارحم الراحمین واکرم الاکرمین، [ 79] ان کی نشانی ان کے چہروں میں : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان کی نشانی ان کے چہروں میں ہوگی سجدوں کے اثر سے۔ یعنی وہ نور جس کے اثرات ان کے چہروں پر چمک دمک رہے ہوتے ہیں اور یہ پرتو ہے ایمان و یقین اور خشوع و خضوع کے اس نور کا جو ان کے دلوں میں جاگزیں تھا، جیسا کہ حضرت عثمان ؓ سے مروی ہے کہ انسان اپنے باطن میں جو بھی کچھ چھپائے گا اللہ پاک اس کو اس کے چہرے کے صفحات اور اس کی زبان کی حرکات سے ظاہر فرما دے گا [ ما اسر احد سریرۃ الا ابداھا اللّٰہ علی صفحات وجھہ وفلتات لسانہ ] اور حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ جس نے اپنے باطن کو صحیح رکھا اللہ تعالیٰ اس کے ظاہر کو صحیح فرما دیتا ہے [ من اصلح سریرتہٗ اصلح اللّٰہ علانیتہٗ ] اور خود حضرت نبی (علیہ السلام) سے حدیث مرفوع میں مروی ہے کہ انسان اپنے باطن میں جو بھی کچھ پوشیدہ رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی چادر اس کے ظاہراوڑھا دیتے ہیں، خیر ہوگا تو خیر کی چادر اور شر ہوگا تو شر کی چادر، [ والعیاذ باللّٰہ ] چناچہ ارشاد فرمایا " ما اسر احد سریرتہٗ الا البسہ اللّٰہ تعالیٰ ردائھا ان خیراً فخیرا و ان شرا فشرا " [ رواہ الطبرانی وغیرہ ] سو انسان کے باطن میں جو بھی کچھ ہوتا ہے اس کے آثار اس کے چہرے پر نمایاں ہوجاتے ہیں، واضح رہے کہ چہرے کی اس نشانی سے مراد ماتھے کا وہ گنا نہیں جو بعض لوگوں کی پیشانیوں پر ظاہر ہوجاتا ہے، اور جس کو عام طور پر ماتھے کا محراب کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ نہ تو سب حضرات کے ماتھے پر ظاہر ہوتا ہے، اور نہ ہی اس کو باطن کی صفائی کی نشانی قرار دیا جاسکتا ہے، جیسا کہ حضرات اہل علم نے اس کی تصریح فرمائی ہے، چناچہ امام تفسیر حضرت مجاہد (رح) فرماتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ کسی کے ماتھے پر مینڈھے کے گٹے کے برابر اس طرح کا نشان ہو، مگر اس کا دل پتھر سے بھی زیادہ سخت اور فرعون کے دل سے بھی زیادہ شقی اور بدبخت ہو، والعیاذ باللّٰہ العظیم سو اس سے مراد باطن کا وہ نور ہے جو خشوع و خضوع کے اثر سے اہل ایمان کے چہروں پر ظاہر ہوتا ہے [ روح، قرطبی، مراعی، ابن کثیر، محاسن، خازن، مدارک اور معالم وغیرہ ] البتہ اگر باطن کی صفائی اور نور کے ساتھ ظاہر کا یہ نشان بھی موجود ہو تو وہ اس ذیل میں نہیں آئے گا بلکہ وہ تو نور علی نور کے قبیل سے ہوگا۔ جیسا کہ صحیح احادیث میں وارد ہے کہ وہ قطرے اور دو نشان اللہ کو بڑے پسند اور محبوب ہیں۔ دو قطروں سے مراد ایک تو خون کا وہ قطرہ ہے جو مجاہد اللہ کی راہ میں گراتا ہے اور دوسرا آنسو کو وہ قطرہ جو انسان خدا کے خوف سے گراتا ہے۔ اور دو نشانوں سے مراد ایک تو وہ نشان ہے جو مجاہد کو جہاد کے دوران زخم سے لگتا ہے اور دوسرا انسان کا وہ نشان جو کسی عبادت کے نتیجے میں اس کو لگتا ہے۔ سو اوپر جو کچھ اس نشان [ سیما ] کے بارے میں بیان ہوا یہ اس صورت میں ہے جبکہ کوئی بتکلف ایسا کرے کیونکہ بتکلف ایسا کرنا ریا کاری کے زمرے میں آتا ہے جو کہ ممنوع و محذور ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ [ 80] حضرات صحابہ کرام ؓ کی مثال تورات میں : سو اس سے حضرات صحابہ کرام ؓ کی صفت سے متعلق اس مثال کا ذکر اور بیان فرمایا گیا ہے جو ان کے بارے میں تورات میں وارد ہوئے تھی، تورات اور انجیل دونوں کو اگرچہ تحریف و تغییر کے ذریعے کچھ کا کچھ بنادیا گیا، اور خاص کر ان امور کے بارے میں زیادہ ہی تحریف کا ارتکاب کیا گیا، جن کا تعلق حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کی صداقت و حقانیت سے تھا، مگر اس کے باوجود تورات اور انجیل میں آج بھی ایسی باتیں موجود ہیں جن کا مصداق آنحضرت ﷺ کے سوا اور کوئی ہوسکتا ہی نہیں، مثال کے طور پر استثناء باب 33 ۔ 2 میں مذکور ہے خداوند سینا سے آیا، " اور سیعر سے ان پر طلوع ہوا۔ فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا، دس ہزار قدسیوں کے ساتھ آیا۔ اور اس کے داہنے ہاتھ میں ایک آتشیں شریعت بھی ان کیلئے تھی "۔ سو اس پیشگوئی کا مصداق آنحضرت ﷺ کے سوا اور کوئی ہوسکتا ہی نہیں، اس میں جبل فاران کا صریح ذکر بھی ہوا ہے اور دس ہزار قدسیوں کے ساتھ آپ ﷺ کے نمودار ہونے کا صریح لفظوں میں حوالہ بھی، اور یہ ایک مسلم تاریخی حقیقت ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت ﷺ دس ہزار صحابہء کرام کے ہمراہ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تھے اور یہاں پر قرآن حکیم میں تورات کی اس مثال کا ذکر بھی مسلمانوں کے غلبہ اور تمکن ہی کے پہلو سے فرمایا گیا ہے، اور اس پیشگوئی میں جو آتشیں شریعت کا ذکر فرمایا گیا ہے تو اس سے مراد شریعت اسلام ہی ہے جس میں جہاد کا حکم بھی دیا گیا ہے، اور حضرات صحابہء کرام ؓ کے بارے میں " اشدائُ علی الکفار " کے الفاظ بھی ذکر فرمائے گئے ہیں، یعنی یہ کہ وہ کفار کے مقابلے میں بہت سخت ہوں گے۔ سو اس پیشینگوئی کا مصداق آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہء کرام ہی ہیں، علیہم الرحمۃ والرضوان۔ [ 81] حضرات صحابہ کرام کی مثال انجیل میں : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان کی مثال انجیل میں ایسے ہے جیسے ایک کھیتی ہو جس نے اپنی سوئی نکالی پھر اس نے اس کا سہارا دیا۔ پھر وہ سخت ہوگئی اور اپنے تنے پر کھڑی ہوگی، وہ کسانوں کے دلوں کو مونگے لگتی ہے، تاکہ وہ ان کے ذریعے کافروں کے دل موہ لے گی لیکن کافروں کے دلوں کو جلائے، سو اس سے تمثیل کے نتیجے کا اظہار وبیان فرمایا گیا ہے کہ جب اس تخم حق کی فصل شباب پر آئے گی تو حق والوں کے دل موہ لے گی لیکن کافروں کے دل جلیں گے۔ معلوم ہوا کہ صحابہ کرام پر جلنا اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے۔ چناچہ اسی سے استدلال کرتے ہوئے حضرات امام مالک (رح) وغیرہ بعض ائمہ مجتہدین نے روا فض کو کافر قرار دیا ہے [ ابن کثیر، محاسن التاویل، مدارک، معالم، روح، ورطبی وغیرہ ] اور حقیقت بھی یہی ہے کہ روا فض [ شیعہ ] کے عقائد صریح طور پر کفر یہ عقائد ہیں، جیسا کہ علماء حق نے اس بارے میں تفصیل سے لکھا ہے، چناچہ ہمارے اس دور کے علماء کرام اور فقہاء عظام نے ابھی چند ہی سال قبل انہی وجوہ کفر کی بنا پر تکفیر شیعہ کا اجماعی فتوی دیا ہے، جو کہ طبع ہو کر سائع ہوچکا ہے، والعیاذ باللّٰہ جل وعلا، بہرکیف اس سے واضح فرما دیا گیا کہ آخر میں یہ چھوٹی سی جماعت ترقی اور قوت کے ایسے بام و عروج کو پہنچ جائے گی کہ کفار ان کے اس عروج اور ترقی کو دیکھ کر حسد اور حسرت میں جلیں گے، سو حضرات صحابہ کرام سے محبت اور دل کا تعلق ایمان کی علامت اور ان سے بغض وعناد۔ والعیاذ باللّٰہ۔ کفر کی نشانی، علیہم الرحمۃ والرضوان۔ سو ان دونوں میں سے پہلی تورات کی مثال میں حضرات صحابہ کرام ؓ کی شان غلبہ اور تمکن کو واضح فرمایا گیا ہے اور دوسری میں اسلام کے تدریجی عروج و کمال کو واضح فرمایا گیا ہے، جو کھیتی اور دانے کی مثال سے پوری طرح واضح ہوجاتی ہے۔ [ 82] حضرات صحابہ کرام ؓ سب کے سب عادل تھے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ فرمایا ہے ان میں سے ان خوش نصیبوں سے جو صدق دل سے ایمان لائے اور اس کے مطابق انہوں نے کام بھی نیک کیے۔ یعنی یہ بشارت سب صحابہ کرام کیلئے ہے کہ وہ سب کے سب ایسے ہی تھے، اور یہ من تبعیضیہ نہیں بیانیہ ہے [ روح، محاسن، مدارک، خازن، جامع، ابن کثیر وغیرہ ] ۔ سو اس سے یہ واضح فرما دیا گیا ہے کہ ان حضرات کو یہ انعام اور فضل، ایمان اور عمل صالح کی بناء پر ہی نصیب ہوا لہٰذا ان کے نقش قدم پر ان کے بعد آنے والے ہر امتی کو بھی ایمان اور عمل صالح کی اسی دولت کو سب پر اہمیت اور فوقیت دینی چاہئے " اللّٰہم وفقنا لما تحب وترضی من القول والعمل، فی بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ " بہرکیف حضرات صحابہ کرام ؓ سب کے سب عدول اور رحمت و رضاء خداوندی سے بہرہ مند و سرفراز تھے۔ اور وہ دین حق کے صحیح اور سچے نمائندے تھے، رضی اللّٰہ تعالیٰ عنھم و ارضاھم اجمعین، وعنامھم بمحض منک وکرمک یا ارحم الراحمین واکرم الاکرمین، [ 83] حضرات صحابہ کرام ؓ کیلئے اجر عظیم کے وعدے کا ذکر وبیان : سو اس سے حضرات صحابہ ؓ کیلئے عظیم الشان بخشش اور اجر عظیم کا وعدہ اور اعلان فرما دیا گیا۔ پس ان حضرات سے بشری تقاضوں کی بناء پر جو کو تاہیاں سرزد ہوگئی ہوں گی، ان کو معاف فرما دیا جائے گا، اور ان کو جنت کی عظیم الشان نعمتوں سے نواز دیا جائے گا اور جو ان حضرات کے نقش قدم پر چلیں گے ان کے لئے بھی یہی بشارت ہے [ ابن کثیر، مراغی وغیرہ ] بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ جو لوگ ان صفات کے مصداق اور ایمان و عمل میں راسخ اور پختہ کار ہوں گے، اللہ تعالیٰ ان کو عظیم الشان مغفرت و بخشش اور اجر عظیم سے نوازے گا، رہے وہ لوگ جو زبانی کلامی ایمان کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن ان کی ہمدردیاں اللہ اور رسول ﷺ سے زیادہ اسلام کے دشمنوں سے ہیں تو وہ اپنے انجام سے دو چار ہو کر رہیں گے کیونکہ ایسے لوگ اپنی چرب زبانی اور اپنی طمع سازیوں کے ذریعے اگرچہ دنیا سے اور عام لوگوں سے چھپ سکتے ہیں اور چھپ جاتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ سے چھپنا ممکن نہیں، والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ اللہ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اور ہر موقع و مقام پر اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ وآخر دعوانا ان الحمدللّٰہ رب العالمین، الذی بیدہ زمام کل شیئٍ ، وھو الھادی الیٰ سواء السبیل، سبحانہ و تعالیٰ ، وھذا اخر ما کتبتا فی تفسیر سورة الفتح بتوفیق من اللّٰہ تعالیٰ وعنایتہ فلہ الحمد ولہ الشکر۔
Top