Tafseer-e-Madani - Al-Fath : 2
لِّیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ وَ یُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكَ وَ یَهْدِیَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاۙ
لِّيَغْفِرَ : تاکہ بخشدے لَكَ اللّٰهُ : آپ کیلئے اللہ مَا تَقَدَّمَ : جو پہلے گزرے مِنْ : سے ذَنْۢبِكَ : آپکے ذنب (الزام) وَمَا تَاَخَّرَ : اور جو پیچھے ہوئے وَيُتِمَّ : اور وہ مکمل کردے نِعْمَتَهٗ : اپنی نعمت عَلَيْكَ : آپ پر وَيَهْدِيَكَ : اور آپ کی رہنمائی کرے صِرَاطًا : راستہ مُّسْتَقِيْمًا : سیدھا
تاکہ اللہ معاف فرما دے آپ کی اگلی پچھلی سب خطائیں اور تاکہ وہ تکمیل فرما دے آپ پر اپنے انعام کی اور ڈال دے آپ کو سیدھی راہ پر
[ 2] " ما تقدم من ذنبک وما تاخر " سے مقصود و مراد ؟: یعنی خلاف اولیٰ قسم کے وہ امور جو اگرچہ فی نفسہا گناہ نہیں مگر آپ ﷺ کے مقام رفیع اور مرتبہئِ بلند کے پیش نظر ان کو بھی ذنب [ گناہ ] سے تعبیر فرمایا جا رہا ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے " حسنات الابرار سیآت المقربین "۔ سو اس طرح کی آیات کریمہ کی تفسیر میں تمام ثقہ اور معتبر مفسرین کرام اور جمہور علمائے عظام یہی فرماتے ہیں " ای ما فرط منک من ترک الاولیٰ وتسمیتہٗ ذنبا بالنظر الیٰ منصبہ الجلیل " [ ملاحظہ ہو تفسیر روح المعانی، جامع البیان، المراغی، محاسن التاویل، ابو السعود، ابن کثیر، خازن اور صفوۃ التفاسیر، وغیرہ وغیرہ ] اور جیسا کہ علامہ ابن کثیر وغیرہ مفسرین کرام نے لکھا ہے کہ دراصل آنحضرت ﷺ کے افضل البشر، اکمل البشر اور اطوع الخلق۔ یعنی خدائے پاک کی مخلوق میں سب سے افضل اور سب سے کامل بشر، اور سب سے زیادہ اس کی فرمانبردادی کرنے والے ہونے کی دلیل ہے۔ سو حضرات علماء و مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہ بھی آنحضرت ﷺ کے خصائص میں سے ہے، کہ آپ ﷺ کے سوا اور کسی کو بھی یہ شرف حاصل نہیں ہوا کہ اس کی مغفرت و بخشش کا اس طرح اعلان فرمایا گیا ہو۔ [ ابن کثیر وغیرہ ] صلوت اللّٰہ وسلامہ، علیہ وعلی من تبعہ الی یوم الدین۔ پس اس سب سے یہ امر واضح اور محقق ہوگیا، کہ جن لوگوں نے اس آیت کریمہ کا ترجمہ اس کے ظاہر و متبادر مفہوم کے خلاف اس طرح کیا ہے کہ تاکہ اللہ تمہارے سبب سے گناہ بخشے تمہارے اگلوں کے، اور تمہارے پچھلوں کے تو یہ ترجمہ لغت وبیان کے بھی خلاف ہے۔ اور ظاہر و تبادر کے بھی اور سلف و خلف تمام ثقہ تفسیروں کے بھی خلاف و معارض ہے۔ اور یہ محض اپنی ذہنی اختراع ہے جس کی کوئی اصل اور بنیاد نہیں۔ والعیاذ باللّٰہ۔ اور اس کے علاوہ یہ ترجمہ ان کلمات کریمہ کے ظاہر و واضح اور متبادر مفہوم کے بھی خلاف و معارض ہے اور عربی قواعد و ضوابط کے بھی کیونکہ اس میں " لیغفر " کے لام کو لام سببیہ بنایا گیا ہے۔ حالانکہ یہ لام لام سببیہ نہیں بلکہ غائیہ ہے۔ یعنی یہ علت غائیہ کیلئے استعمال ہوا ہے۔ جس کا مدخول سبب نہیں مسبب ہوتا ہے۔ جیسا کہ تمام معتبر تفاسیر میں مذکور ہے۔ بطور نمونہ ملاحظہ ہو تفسیر جلالین اور صفوۃ البیان وغیرہ میں ہے، اللام للعلۃ الغائیۃ فمد خولہ مسبب لاسبب۔ پس متعاطفات اربعۃ یعنی مغفرت ذنوب، اتمام نعمت، ہدایت صراط مستیم اور نصر عزیز، فتح المبین کے مسبب اور اس کی غایت اور نتائج ہیں۔ نہ کہ اس کے سبب [ صفوۃ البیان، کشاف اور مراغی وغیرہ ] سو " لیغفرلک " کالام غایت و نہایت کے مفہوم میں ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو فتح مبین عطا فرمائی۔ تو یہ تمہید ہے جو منتہی ہوگی مندرجہ ذیل چار باتوں پر جن سے اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو سرفراز فرمانے والا ہے دوسرے اس لئے کہ " من ذنبک ما تقدم " کا بیان اور اس سے بدل ہے اور بیان و مبین اور بدل و مبدل منہ کا ایک ہونا ضروری ہوتا ہے۔ جب کہ اس محرف ترجمے کی بنا پر دونوں ایک نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ اس میں " ما تقدم " اور " ماتاخر " سے اگلے پچھلے لوگوں کے گناہ مراد لئے گئے ہیں جو ظاہر ہے کہ " ذنبک " کا مبدل منہ نہیں بن سکتے۔ تیسرے اسلئے کہ یہ معنی و مطلب ظاہر اور متبادر کے لحاظ سے بھی ان الفاظ کا مفہوم و مصداق نہیں بن سکتا۔ سو ارشاد کا یہی مطلب ہوتا تو پھر صاف صریح طور پر عبارت اس طرح ہونی چاہئے تھی " لیغفر ذنب اولک واخرک " یا اس طرح کی کوئی اور عبارت ہوتی۔ پس یہ ترجمہ ظاہر و متبادر کے بھی خلاف ہے اور عربی قواعد و ضوابط، اور زبان وبیان کے بھی۔ اور خود رسول اللہ ﷺ کی تصریحات کے بھی۔ کیونکہ مسند امام احمد ؓ کی روایت کے مطابق جب ایک صاحب نے جب آنحضرت ﷺ کے دسترخوان پر کھانا کھایا تو اس نے آپ ﷺ کو دعا دیتے ہوئے کہا۔ " غفرلک اللّٰہ یا رسول اللّٰہ " اللہ کے رسول اللہ آپ ﷺ کی بخشش فرمائے۔ تو اس پر آنحضرت ﷺ نے اس کو روکنے ٹوکنے یا اس کی تردید فرمانے کی بجائے اس کی تصویب کرتے ہوئے یوں ارشاد فرمایا " نعم ولکم "۔ ہاں اور اللہ تمہاری بھی بخشش فرمائے "۔ پھر اس کی تائید میں آپ ﷺ نے سورة محمد کی آیت نمبر 19 تلاوت فرمائی جس میں ارشاد ہوتا ہے { واستغفر لذنبک } جیسا کہ سورة محمد کی اس آیت کریمہ کی تفسیر میں قدرے تفصیل سے گزر چکا ہے۔ اسی طرح موصوف کا یہ ترجمہ سلف و خلف کے تمام ثقہ مفسرین اور معتمد علیہ علمائے کرام کے ترجمہ و تفسیر اور ان کی تصریحات کے بھی خلاف ہے۔ جس میں حضرات صحابہء کرام، تابعین عظام اور ان کے اتباع وتابعین سب ہی حضرات شامل ہیں۔ اور صحیح بخاری و مسلم وغیرہ کی روایات میں ہیں کہ جب آنحضرت ﷺ کی عبادت و ریاضت کے بارے میں آپ سے عرض کیا گیا کہ آپ اس قدر غیر معمولی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا " افلا اکون عبد اشکورا " یعنی کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟ سو اس سوال کے جواب میں آپ ﷺ نے اس سوال کے مضمون کی تصویب و تصدیق فرماتے ہوئے آپ ﷺ نے اپنی اس عبادت و ریاضت کو اس مضمون کو بخشش کے شکر کا مقتضیٰ قرار دیا۔ صلوات اللّٰہ وسلامہ علیہ وعلی آلہ وصحبہ ومن والاہ ما تبقی ھذہ الاحرف والکلمات۔ [ 3] اتمام نعمت کی رحمت و عنایت کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا " اور وہ پورا فرما دے تم پر اپنی نعمت کو "۔ سو اس سے آنحضرت ﷺ کو نعمت دین کے اتمام اور اس کی تکمیل کی بشارت سے سرفراز فرما دیا گیا۔ چناچہ حجۃ الوداع کے موقع پر جب اس نعمت کی تکمیل ہوگئی تو اعلان فرما دیا گیا { حرمت علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر وما اہل لغیر اللّٰہ بہ والمنخنقۃ والموقوذۃ والمتردیۃ والنطیحۃ وما اکل السبع الا ما ذکیتم قف وما ذبح علی النصب وان تستقسموا بالازلام ط ذلکم فسق ط الیوم یئس الذین کفروا من دینکم فلا تخشوھم واخشون ط الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا ط فمن اضطر فی مخمصۃ غیر متجانف لاثم لا فان اللّٰہ غفور الرحیم } [ المائدۃ : 3 پ 6] یعنی " اب میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کردیا، اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی۔ اور تمہارے لئے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کرلیا "۔ اور اسی میں یہ بھی داخ (رح) ہے کہ مسلمانوں کو ہر قسم کی بیرونی مداخلت اور خوف و خطر سے محفوظ کردیا تاکہ وہ اسلامی تہذیب و تمدن اور اسلامی احکام و قوانین کے مطابق زندگی بسر کرنے کیلئے بالکل آزاد اور پوری طرح مطمئن ہوں۔ اور ان کو یہ طاقت بھی نصیب ہو کہ وہ دنیا میں اللہ کا کلمہ بلند کرسکیں، اور کفر و شرک اور فسق و فجور کا وہ غلبہ جو بندگی رب کی راہ میں مانع اور اعلاء کلمۃ اللہ کی سعی میں مزاحم تھا اس سے بھی خلاصی پاس کیں۔ کیونکہ یہ چیز بھی اہل ایمان کیلئے سب سے بری مصیبت ہے۔ اسی لئے قرآن حکیم نے اس کو فتنہ قرار دیا ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم جل وعلا۔ اور آپ ﷺ کے پیش کردہ دین حق کو سب دینوں پر غالب کر دے۔ تاکہ باطل اس کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکے۔ اور کلمہ حق کا بول بالا ہو۔ لتکون کلمۃ اللّٰہ ہی العلیا۔ اور کفر و فسق کا غلبہ جو اعلائِ کلمۃ اللّٰہ اور بندگیئِ رب میں مانع ہو اور جس کو قرآن فتنہ قرار دیتا ہے وہ ختم ہوجائے۔ اس کے اندر دین حق کیلئے مزاحم اور رکاوٹ بننے کا دم خم باقی نہ رہے۔ اور اس سے خلاصی پاکر مسلمانوں کو ایک ایسا مستقر اور دار السلام میسر آجائے جس میں اللہ کا دین پورے کا پورا بلا کم وکاست نافذ اور جاری ہو۔ اور ان کو ایسے ذرائع و وسائل بھی بہم پہنچ جائیں جن سے کام لیکر وہ خدا کی زمین پر کفر و فسق کی جگہ ایمان وتقویٰ کا سکہ جاری کرسکیں۔ سو اس نعمت کی تکمیل کیلئے ہم نے آپ ﷺ کو اس فتح مبین سے نوازا تاکہ اللہ کا دین سب دینوں پر غالب ہو کر رہے۔ والحمدللّٰہ جل وعلا۔ بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، یا ذا الجلال والاکرام۔ [ 4] سیدھے راستے سے سرفرازی کی عنایت کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا " اور تاکہ اللہ آپ ﷺ کو ڈال دے سیدھی پر " یعنی فتح و کامرانی اور حق ہدایت کی اس شاہراہ عظیم پر جو انسان کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے ہمکنار کرنے کا سامان فراہم کرے۔ سو آپ ﷺ کو اس راہ پر ڈال کر اور ثابت قدمی سے مشرف فرما کر پوری امت اور ساری مخلوق کے لئے رحمت و ہدایت کا سامان فرما دیا گیا۔ تاکہ اس طرح پوری مخلوق کا بھلا ہو۔ سو یہ اتمام حجت اور تکمیل دین کا ثمرہ تھا جس سے حضور ﷺ کر سرفراز فرمایا گیا تھا۔ یعنی اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو حق و ہدایت کی اس راہ حق و صواب اور صراط مستقیم پر ڈال دے جس سے شیطان نے لوگوں کو ہٹا دیا تھا کیونکہ اللہ نے اپنی مخلوق کی ہدایت و راہنمائی کیلئے جو دین حق نازل فرمایا تھا، یہودی و نصاریٰ وغیرہ باطل پرستوں نے اس کو ضائع کردیا تھا۔ اور مشرکین مکہ نے تو ملت ابراہیمی کو اس حد تک بگاڑ دیا تھا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے تعمیر کردہ مرکز توحید تک کو ان بدبختوں نے بت خانہ بنادیا تھا۔ اور نشان راہ کو اس حد تک مٹا دیا گیا تھا کہ خداوند تعالیٰ تک پہنچانے والی سیدھی راہ بالکل گم اور ناپید ہوچکی تھی۔ سو یہ راہ نبی آخر الزماں کی بعثت و تشریف آوری کے ذریعے اب دوبارہ دنیا کو نصیب ہوئی تھی۔ اور آپ ﷺ کے ذریعے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے تعمیر کردہ مینار نور کو کفر و شرک کے نرغے سے نکال کر پھر مرکز توحید بنادیا گیا۔ اور ملت ابراہیم اب دوبارہ اپنی اصل شکل و صورت میں ظاہر ہوئی۔ سو صلح حدیبیہ کے ذریعے آپ کے لئے حق و ہدایت کی اس شاہراہ عظیم کو ہموار کردیا گیا۔ اور آپ کو وہ تدبیر سمجھا دی گئی جس سے آپ ﷺ اسلام کی مزاحمت کرنے والی تمام طاقتوں کو زیر اور مغلوب کردیں۔ والحمد للہ جل وعلا۔ سو اس اعتبار سے بھی صلح حدیبیہ ایک عظیم الشان فتح اور فتح مبین تھی۔ والحمد للہ رب العالمین۔
Top