Tafseer-e-Madani - Al-Fath : 9
لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُ١ؕ وَ تُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا
لِّتُؤْمِنُوْا : تاکہ تم ایمان لاؤ بِاللّٰهِ : اللہ پر وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کے رسول وَتُعَزِّرُوْهُ : اور اس کی مدد کرو وَتُوَقِّرُوْهُ ۭ : اور اس کی تعظیم کرو وَتُسَبِّحُوْهُ : اور اس (اللہ) کی تسبیح کرو بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا : صبح اور شام
تاکہ تم (اے لوگوں ! ) ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور تاکہ تم تعظیم (و توقیر) کرو اس کی اور تسبیح کرو اس کی صبح و شام (یعنی ہمہ وقت)2
[ 17] بعثت رسول ﷺ کا اولین مقصد دولت ایمان سے سرفرازی : سو ارشاد فرما گیا کہ " تاکہ تم لوگ ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر، اور اس طرح تم سعادت دارین سے سرفراز ہو سکو کہ پہلا اور بینادی حق ہے انسان پر اللہ جل جلالہ اور اس کے رسول معظم ﷺ کا، کہ ان پر سچے دل سے ایمان لایا جائے۔ اسی پر دنیا و آخرت کی سعادت و سرخروئی کا دارومدار ہے۔ ورنہ آخرت کیا اس سے پہلے خود یہ دنیا بھی انسان کیلئے ایک عذاب ہے کہ ایمان و یقین کے اس نور مبین سے محرومی کی صورت میں اندھیرے ہی اندھیرے ہیں کہ ایسے میں انسان اپنے مقصد زندگی سے غافل، اپنے آغاز و انجام سے بیخبر اور اپنے خالق ومالک کی معرفت سے عارفی و محروم ہو کر جہاں حیوانوں والی زندگی گزارتا ہے بلکہ اس سے بھی نیچے گر کر وہ قعر مذلت میں پہنچ جاتا ہے، اور اسفل السافلین بن کر رہ جاتا ہے۔ اور " اولئک کالا نعام بل ہم اضل " کا مصداق بن جاتا ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ جبکہ نور ایمان و یقین سے سرفرازی کے بعد انسان اتنا بلند اقبال اور اس قدر رفیع المرتبیت ہوجاتا ہے کہ حاملین عرش فرشتے بھی اس کی مغفرت و بخشش اور اس کی بلندی ئِ درجات کیلئے دعائیں کرنے لگتے ہیں۔ جیسا کہ سورة ئِ مومن کی آیت نمبر 7 سے آیت نمبر 10 تک میں اس کی تصریح و تفصیل موجود و مذکور ہے۔ فالحمد للّٰہ الذی شرفنا بنعمۃ الایمان اللھم زدنا منہ وثبتنا علیہ۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ ہم نے رسول کو شاہد اور مبشر بنا کر اس لئے بھیجا تاکہ تم ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر۔ اور ایمان سے ظاہر ہے کہ مراد سچا پکا اور حقیقی ایمان ہے، نہ کہ محض زبانی کلامی اور ظاہری ایمان جس کا دعویٰ منافق لوگ کرتے تھے کہ ایسا ایمان دراصل ایمان نہیں بلکہ محض زبانی جمع خرچ اور ایمان کے نام پر دھوکہ ہے جس میں ایسے لوگ خود مبتلا ہوتے ہیں مگر ان کو احساس و شعور نہیں ہوتا۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ اللہم فھذہ نواصینا بین یدیک فخذنا بھا الی مافیہ حبک ورضاک بکل حال من الاحوال وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، یاذالجلال والاکرام، یامن بیدہ ملکوت کل شیئٍ وھو یجیر ولا یجار علیہ۔ [ 18] ایمان کا لازمی تقاضا اللہ کے دین کی تعظیم و توقیر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " تاکہ تم لوگ اس کی تعظیم و توقیر کرو "۔ یعنی اس کے دین کی مدد کرو۔ سو تعزیر کے اصل معنی اس مدد کے ہوتے ہیں جو تعظیم کے ساتھ ہو۔ [ خازن، مفردات، راغب، معارف وغیرہ ] اور سزا کو تعزیر کہا جاتا ہے تو وہ بھی اس لئے کہ اس میں بھی دراصل مجرم کی مدد اور اس سے ہمدردی ہی مطلوب ہوتے ہے کہ وہ جرم سے پاک ہوجائے اور آئندہ کے لئے اس سے باز رہے۔ سو اس سے اس کی مجموعی طور پر پورے معاشرے کی مدد اور ہمدردی مطلوب ہوتی ہے۔ تاکہ وہ جرائم سے پاک و صاف ہوجائے اور جرائم پیشہ لوگ ارتکاب جرم سے رک جائیں اور بری روش سے باز آجائیں۔ تاکہ اس طرح وہ سعادت دارین سے بہرہ ور ہو سکیں۔ یہ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں ایک اور مشہور قول و احتمال ہے جس کو اکثر مفسرین کرام نے اختیار فرمایا ہے اور اس کی بنیاد یہ ہے کہ " تعزروہ " کی ضمیر کا مرجع لفظ جلالہ یعنی اللہ ہے۔ جبکہ دوسرا قول و احتمال جس کو بعض اہل علم نے اس بارے اختیار فرمایا ہے یہ ہے کہ اس ضمیر کا مرجع رسول ہے۔ رسول کی تعظیم و توقیر دونوں باہم لازم و ملزوم ہیں۔ ایک کی تعظیم و توقیر دوسرے کی تعظیم و توقیر کو مستلزم ہے۔ اور ایک کی نفی دوسرے کی نفی کو۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ اللہ ہمیشہ اپنی رضا کی راہوں پر قائم رکھے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین یا ارحم الراحمین واکرم الاکرمین، فنحن لک، وبک، والیک، انت المستعان، وعلیک التکلان، فی کل حین وان، انت الرحیم الرحمن، والحنان والمنان، یاذالجلال والاکرام یامن وسعت رحمتہ کل شیء، ھو ارحم بعبادہ منھم لانفسھم سبحانہ و تعالیٰ جل شانہ وعم نوالہ، وعزبرھانہ، [ 19] ایمان کا دوسرا بڑا اور لازمی تقاضا ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتحمید : سو ارشاد فرمایا گیا " اور تاکہ تم اس کی تسبیح کرو صبح و شام "۔ یعنی ہر وقت اس کے ذکر اور اس کی تسبیح و تمحید سے رطب اللسان اور شاد کام رہو کہ اسکا ذکر اور اس کی تسبیح و تمحید ہی دراصل انسان کی زندگی اور اس کی روح کی غذا ہے۔ طرفین کا ذکر دراصل کنایہ ہوتا ہے عموم و شمول سے۔ جیسا کہ مشرق و مغرب بول کر پوری زمین مراد لی جاتی ہے۔ اسی طرح یہاں پر صبح و شام کے ذکر سے دراصل مراد ہے ہر وقت۔ سو تم لوگ ہر وقت اللہ پاک کی تسبیح و تنزیہہ اور اس کے ذکر میں لگے رہو۔ خاص کر صبح و شام کے دونوں وقتوں میں۔ { تسبحوہ } کی ضمیر کا مرجع چونکہ سب سے نزدیک متعین ہے کہ وہ " اللہ " جل جلالہ ہی ہے۔ کہ تسبیح تو بہرحال اسی کی ہوتی ہے۔ اس لئے یہ قرینہ ہے کہ پہلی دونوں ضمیروں کا مرجع بھی یہی قرار دیا جائے۔ جیسا کہ اوپر ہم نے اختیار کیا ہے۔ تاکہ ضمائر میں انتشار و تفکیک لازم نہ آئے۔ جو کہ بلاغت کے خلاف ہے۔ لیکن بعض حضرات مفسرین نے پہلی دونوں ضمیروں کا مرجع آنحضرت ﷺ کو قرار دیا ہے۔ معنی تو اس صورت میں بھی صحیح اور واضح ہے مگر ضمائر میں انتشار بہر حال رہے گا۔ اس لئے اہل تحقیق کے نزدیک ان دونوں ضمیروں کا مرجع بھی حضرت حق جل مجدہ ہی ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ بہرکیف اس سے ایمان صادق کا دوسرا بڑا متقضیٰ بیان فرمایا گیا ہے۔ یعنی اللہ پاک کی تسبیح اور اس کی تمہید۔ سو اس وحدہ لاشریک کی ذات اقدس و اعلیٰ پاک ہے ہر قسم کے نقص و عیب اور ہر شائبہ شرک سے۔ اور جب اس ساری کائنات کا خالق ومالک اور اس کائنات کے مخدوم ومطاع حضرت انسان کا خالق ومالک بھی وہی وحدہ لاشریک ہے، تو پھر خوبی و کمال اور حمد و ثنا کا مستحق اور حق دار بھی وہی وحدہٗ لاشریک ہے۔ پس ایمان صادق کا لازمی اور بدیہی تقاضا یہی ہے کہ انسان ہر وقت اسی کی تسبیح و تمہید میں مشغول و منہمک رہے۔ وباللّٰہ التوفیق فسبحان اللّٰہ وبحمدہ و سبحان اللّٰہ العظیم بکل حال من الاحوال، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین یا ارحم الراحمین واکرم الاکرمین،
Top