Tafseer-e-Madani - Al-Hujuraat : 10
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْكُمْ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۠   ۧ
اِنَّمَا : اسکے سوا نہیں الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) اِخْوَةٌ : بھائی فَاَصْلِحُوْا : پس صلح کرادو بَيْنَ : درمیان اَخَوَيْكُمْ ۚ : اپنے بھائیوں کے وَاتَّقُوا اللّٰهَ : اور ڈرو اللہ سے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم پر تُرْحَمُوْنَ : رحم کیا جائے
سوائے اس کے نہیں کہ ایمان والے آپس میں بھائی ہیں پس (اختلاف کی صورت میں) تم صلح کرا دیا کرو اپنے دونوں بھائیوں کے درمیان اور (ہر حال میں) ڈرتے رہا کرو تم لوگ اللہ سے (اور بچتے رہا کرو اس کی نافرمانی سے) تاکہ تم پر رحم کیا جائے
[ 28] ایمان والے آپس میں بھائی بھائی : سو ارشاد فرمایا گیا اور " انما " کے کلمہ حصر کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ بیشک ایمان والے آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ دینی و ایمانی اخوت کی بنا پر۔ جو کہ نسبی اخوت سے بھی کہیں بڑھ کر بڑی چیز اور قوی رشتہ ہے۔ پس اسلام گویا بمنزلہ باپ کے ہے اور سب مسلمان بمنزلہ اس کی اولاد کے۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے کہ " جب لوگ قیس و تمیم۔ اپنے آباؤ واجداد۔ پر فخر کریں گے تو میں صرف اسلام پر فخر کروں گا کہ وہی میرا باپ ہے۔ اس کے سوا میرا کوئی باپ نہیں "۔ ابی الاسلام لا اب لی سواہ۔ اذا افتخروا بقیس اوتمیم۔ سو اخوت اسلامی بہت بڑی چیز ہے اور یہ رشتہ بڑا ہی مبارک و مسعود رشتہ ہے جو دوسرے سب رشتوں پر فائق ہے۔ اسکا ہمیشہ پاس ولحاظ کرنا چاہیے۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، [ 29] اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کرانے کا حکم و ارشاد : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " اختلاف و نزاع کی صورت میں تم لوگ صلح کرا دیا کرو اپنے بھائیوں کے درمیان "۔ اور فریقین میں صلح صفائی کے دوران عدل و انصاف سے کام لیا کرو۔ نہ کہ کسی طرح کی جانبداری سے۔ اور یہاں پر [ بینھم ] کی بجائے [ بین اخویکم ] فرما کر اس کی مزید تاکید فرما دی گئی کہ وہ دونوں تمہارے بھائی ہیں اور جب تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ان کے درمیان کسی نزاع کا پیدا ہونا ہی اول تو ان کی باہمی اخوت کے منافی اور دینی تقاضوں کے خلاف ہے۔ لیکن اگر کبھی کسی شیطانی انگیخت سے ایسا ہوجائے تو مسلمانوں کو ان کے درمیان مصالحت کروا دینی چاہئے۔ یہ تمہاری دینی اور ایمانی اخوت کا تقاضا ہے۔ اور اسی میں تمہارے لیے بھلا اور بہتری ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، کہ اسی سے معاشرتی بگاڑ سے حفاظت ہوگی اور تم لوگوں کو امن و سلامتی کی برکتوں بھری فضا نصیب ہوگی۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، [ 30] تقویٰ وسیلہء سعادت و سرفرازی : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ تقویٰ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں سے سرفرازی کا ذریعہ اور وسیلہ ہے۔ چناچہ ارشاد فرمایا گیا " اور تم لوگ ہمیشہ ڈرتے رہا کرو اللہ سے تاکہ تم پر رحم کیا جائے "۔ سو تقویٰ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے۔ اور رحم فرمانے کی اس عنایت کو یہاں پر اور اسی طرح اس جیسے دوسرے مقامات پر بھی حرف ترجی یعنی " لعل " کے ساتھ تعبیر فرمایا گیا ہے۔ جو " شاید " اور " امید " کے معنی میں آتا ہے۔ سو اللہ پاک کے کلام میں اس کے استعمال کے دو پہلو اور وہ اعتبار ہیں۔ ایک یہ کہ یہ شاہانہ کلام کا ایک خاص اسلوب و انداز ہوتا ہے، جو کہ شاہی وعدہ کیلئے ایک مشہور و معروف انداز ہے۔ پس کوئی بادشاہ اگر اس طرح کے الفاظ اپنے کلام میں استعمال کرے تو اس کے معنی یقین و وجوب دہی کے ہوتے ہیں۔ اور یہاں تو معاملہ بادشاہوں کے بادشاہ اور شہنشاہ حقیقی حضرت حق۔ جل مجدہ۔ کے کلام کا ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ اسلئے حضرات علمائے کرام کا کہنا ہے کہ " لعل من اللّٰہ للوجوب " کہ " اللہ پاک کے کلام میں لفظ [ لعل ] کا استعمال یقین و وجوب کیلئے ہوتا ہے "۔ یعنی ایسا ضرور ہوگا اور ہو کر رہے گا۔ جبکہ اس میں دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اللہ پاک کا وعدہ تو یقینا سچا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا تقویٰ اس قابل ہے اور اس معیار پر پورا اتر سکتا ہے کہ اس ذات اقدس و اعلیٰ کے حضور شرف قبولیت سے مشرف ہوسکے ؟ سو [ لعل ] کے کلمہ ترجیّ کے استعمال میں ہمارے لیے یہ اہم درس بھی ہے کہ اپنے عمل کو اس قابل بنانے کی فکر و سعی کرتے رہنا چاہیے کہ وہ حضرت حق۔ جل مجدہ۔ کے حضور شرف قبولیت پاس کے اور ہر شائبہ شرک و ریاکاری سے پاک و صاف ہو۔ اپنی نیت اور ارادے کو بھی درست رکھا جائے اور اپنے عمل و کردار کو بھی۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، بکل حال من الاحوال وھو الھادی الی سواء السبیل جل جلالہٗ وعم نوالہٗ فعلیہ نتوکل وبہ نستعین۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔
Top