Tafseer-e-Madani - Al-Hujuraat : 17
یَمُنُّوْنَ عَلَیْكَ اَنْ اَسْلَمُوْا١ؕ قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَیَّ اِسْلَامَكُمْ١ۚ بَلِ اللّٰهُ یَمُنُّ عَلَیْكُمْ اَنْ هَدٰىكُمْ لِلْاِیْمَانِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
يَمُنُّوْنَ : وہ احسان رکھتے ہیں عَلَيْكَ : آپ پر اَنْ اَسْلَمُوْا ۭ : کہ وہ اسلام لائے قُلْ : فرمادیں لَّا تَمُنُّوْا : نہ احسان رکھو تم عَلَيَّ : مجھ پر اِسْلَامَكُمْ ۚ : اپنے اسلام لانے کا بَلِ اللّٰهُ : بلکہ اللہ يَمُنُّ : احسان رکھتا ہے عَلَيْكُمْ : تم پر اَنْ هَدٰىكُمْ : کہ اس نے ہدایت دی تمہیں لِلْاِيْمَانِ : ایمان کی طرف اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صٰدِقِيْنَ : سچے
یہ لوگ آپ پر احسان رکھتے ہیں اس بات کا یہ اسلام لائے ہیں (ان سے) کہو کہ اپنے اسلام کا احسان مجھ پر نہ رکھو بلکہ احسان تو اللہ نے تم پر فرمایا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی ہدایت سے نوازا اگر تم سچے ہو (اپنے دعوی ایمان میں)
[ 54] بدویوں کے احسان جتلانے کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ یہ لوگ آپ پر احسان رکھتے ہیں کہ یہ اسلام لائے۔ جس طرح کہ بنو اسد وغیرہ کے کچھ لوگوں نے آنحضرت ﷺ سے احسان جتلاتے ہوئے کہا تھا کہ ہم بغیر لڑے بھڑے آپ پر ایمان لے آئے جب کہ دوسروں نے آپ سے جنگ وجدال سے کام لیا، وغیرہ، سو یہیں سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ کسی کو اگر دین کی کوئی خدمت انجام دینے کی توفیق مل رہی ہے تو وہ کسی اور پر اس کا احسان جتلانے کی بجائے، اسے خود اپنے اوپر اللہ پاک کا احسان سمجھے کہ اسی کے فضل و کرم سے یہ سعادت نصیب ہوئی ہے، جو کہ دارین کی فوزوفلاح کا ذریعہ ہے، منت منہہ کی خدمت سلطان می کہ منت ازوشناس کہ بخدمت گزاشتت، یعنی بادشاہ پر احسان مت جتلاؤ کہ تم اس کی خدمت کر رہے ہو، بلکہ احسان اس کا سمجھو کہ اس نے تمہیں اپنی خدمت کے شرف سے مشرف فرمایا ہے۔ فلک الحمد والشکر یا ربی علی ما کرمتی وشرفتنی بنعمۃ الدین والایمان وبخدمۃ ھذا الدین المبارک المجید یا ارحم الراحمین ویا اکرم الاکرمین۔ بہرکیف اس سے ان بدوی لوگوں کے اس گھمنڈ کے بارے میں ارشاد فرمایا جو وہ اپنے ایمان و اسلام کے بارے میں اپنے دماغوں میں رکھتے تھے کہ ہم چونکہ کسی لڑائی بھڑائی کے بغیر ایمان لائے ہیں اس لئے ہمارے لئے خاص رعایتیں اور خاص حقوق ہونے چاہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی پناہ میں رکھے اور ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی رضا کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین۔ [ 55] احسان جتلانے والے بدویوں کو جواب : سو احسان جتلانے والے ایسے اعراب کے جواب میں ارشاد فرمایا گیا کہ ان سے کہو کہ اپنے اسلام کا احسان مجھ پر نہ رکھو کہ میں نے تم کو اسلام کو دعوت نہ تو اپنے کسی ذاتی فائدے کے لئے دی اور نہ ہی اس سے میرا کوئی ذاتی اور دینوی مفاد وابستہ ہے۔ بلکہ یہ سراسر تمہاری ہی بھلائی اور خیر خواہی کے لئے ہے، تو پھر مجھ پر احسان جتلانے کا کیا مطلب ؟ میں نے تو تم لوگوں کو دین کی دعوت خود تمہارے بھلے کے لیے دی کہ تاکہ اس طرح تمہاری دینا بھی بنے اور آخرت بھی۔ سو تم لوگ اگر دین و ایمان میں سچے ہو تو تمہارا احسان مجھ پر نہیں، بلکہ احسان تو اصل میں اللہ تعالیٰ کا تم لوگوں پر ہے کہ اس نے تم کو اسلام کی نعمت سے نوازا۔ جو کہ سعادت دارین سے سرفرازی کا ذریعہ ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ پس تم لوگ اسی کا شکر ادا کرو۔ [ 56] احسان تو اصل میں اللہ تعالیٰ ہی کا ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اپنے اسلام کا احسان مجھ پر مت جتلاؤ بلکہ احسان تو اللہ کا تم لوگوں پر ہے۔ کہ اس نے تم کو دولت ایمان سے نوازا، کہ ایمان و یقین کی اس دولت اور دین حنیف کی تعلیمات مقدسہ میں تمہارے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی کا سامان ہے، فالحمدللّٰہ اگر تم لوگ سچے ہو اپنے دعویٰ ایمان میں یعنی اول تو تم لوگ اپنے اس دعوے ہی میں سچے نہیں ہو، بلکہ یہ سب کچھ تمہاری لاف زنی اور محض زبانی جمع خرچ ہے، اور اگر تمہاری اس بات میں کچھ صداقت اور وزن ہے تو تمہیں ہم پر احسان جتلانے کی بجائے اللہ تعالیٰ کا ممنون واحسان اور شکرگزار ہونا چاہیے کہ اس نے تمہیں اس کی توفیق بخشی۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ ورنہ تم لوگ گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوبے ہوئے تھے۔ پس کرم اسی وحدہٗ لاشریک کا ہے۔
Top