Tafseer-e-Madani - Al-Hujuraat : 3
اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰى١ؕ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ
اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ يَغُضُّوْنَ : پست رکھتے ہیں اَصْوَاتَهُمْ : اپنی آوازیں عِنْدَ : نزدیک رَسُوْلِ اللّٰهِ : اللہ کا رسول اُولٰٓئِكَ : یہ وہ لوگ الَّذِيْنَ : جو، جن امْتَحَنَ اللّٰهُ : آزمایا ہے اللہ نے قُلُوْبَهُمْ : ان کے دل لِلتَّقْوٰى ۭ : پرہیزگاری کیلئے لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ : ان کیلئے مغفرت وَّاَجْرٌ عَظِيْمٌ : اور اجر عظیم
بیشک جو لوگ پست رکھتے ہیں اپنی آوازوں کو اللہ کے رسول کے حضور اللہ نے جانچ (اور پرکھ) لیا ان کے دلوں کو قوی (و پرہیزگاری) کے لئے ایسے (خوش نصیب) لوگوں کے لئے عظیم الشان بخشش بھی ہے اور بہت بڑا اجر بھی
[ 6] پیغمبر (علیہ السلام) کے معاملے میں صحیح ادب کی تعلیم و تلقین کا ذکر وبیان : سو اس سے پیغمبر کے بارے میں صحیح رب کی تعلیم دی گئی کہ سامنے اپنی آوازوں کو پست رکھا جائے۔ ان کے ادب و احترام کے تقاضوں کے مطابق۔ اسی لئے حضرت علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اسی طرح آپ ﷺ کی قبر مبارک کے پاس بھی آواز بلند کرنا درست نہیں۔ کیونکہ آپ ﷺ اپنی موت کے بعد بھی ایسے ہی قابل احترام ہیں جس طرح کہ اپنی حیات طیبہ میں تھے۔ " لانہ محترم حیا ومیتا و فی قبرہ ﷺ " [ ابن کثیر وغیرہ ] ۔ چناچہ حضرت عمر فاروق ؓ کے بارے میں مروی ہے کہ آپ ؓ نے جب دو آدمیوں کو مسجد نبوی میں اونچی آواز سے بات کرتے ہوئے سنا تو ان سے فرمایا کہ " تم جانتے ہو کہ تم کہاں ہو ؟ "۔ " اتدریان این انتما "۔ پھر ان سے پوچھا " تم کہاں کے ہو ؟ " " من این انتما " تو انہوں نے کہا " طائف سے " آئے ہیں۔ تب آپ ؓ نے فرمایا کہ " اگر تم یہاں کے ہوتے تو میں تمہاری ٹھکائی کرتا "۔ " لو کنتما من اہل البلد لاو جعتکما ضربا " [ ابن جریر، ابن کثیر، روح، قرطبی، خازن، مدارک وغیرہ ] ۔ بہرکیف اس ارشاد سے اس صحیح ادب کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے جو پیغمبر ﷺ کے مقابلے میں ہر مسلمان کو اپنانا لازم ہے۔ کیونکہ یہ دین متین کا ایک اہم اور بنیادی تقاضا ہے۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ۔ [ 7] اللہ تعالیٰ کے یہاں اصل امتحان دلوں کا ہوتا ہے، سبحانہ وتعالیٰ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ جو لوگ اللہ کے رسول کے سامنے اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کا اللہ نے امتحان لیا ہے تقویٰ کیلئے اور ان کو اس نے تقویٰ کی تخم ریزی اور اس کو افزائش کیلئے موزوں پایا اسی لئے اس نے ان کو تقویٰ و پرہیزگاری سے سرفراز فرمایا سو اس سے واضح فررما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں کا امتحان دلوں کا امتحان ہوتا ہے۔ چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ " اللہ نے جانچ پرکھ لیا ان کے دلوں کو تقویٰ و پرہیزگاری کیلئے "۔ سو اللہ تعالیٰ کے یہاں معاملہ محض ظاہرداری پر مبنی نہیں ہوتا، بلکہ وہاں پر ظاہر سے پہلے باطن کا امتحان ہوتا ہے۔ سو ان حضرات صحابہ کرام ؓ کے دلوں کو تقویٰ و پرہیزگاری کے اہل اور لائق پانے اور بنانے کے بعد ان خاص عنایات سے نوازا گیا۔ دلوں کے امتحان کے ذکر سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں ہر دل تقویٰ کی تخم ریزی اور اس کی افزائش کیلئے موزوں نہیں ہوتا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ اس کیلئے امتحان کرکے دلوں کا انتخاب کرتا ہے۔ اور اس امتحان میں اصل چیز جو ترجیح دینے والی بنتی ہے وہ یہ ہوتی ہے کہ آدمی کے اندر اللہ اور اس کے رسول کیلئے انقیاد و اطاعت کا سچا جذبہ اور ان کے آگے عجزو فرقتنی کا صحیح شعور موجود ہے یا نہیں۔ یہ چیز جس کے اندر جتنی زیادہ ہوتی ہے اس کو اسی قدر تقویٰ و پرہیزگاری کی نعمت زیادہ عطا ہوتی ہے۔ اور جو لوگ اس شعور سے جتنے عاری ہوتے ہیں۔ والعیاذ باللّٰہ۔ وہ اتنے ہی تقویٰ و پرہیزگاری سے بعید اور محروم ہوتے ہیں پس انسان کے بنائے و بگاڑ کا اصل دارومدار اس کے قلب و باطن پر ہوتا ہے۔ والعیاذ باللّٰہ من کل زیغ وضلال، وسوئٍ و انحراف بکل حال من الاحوال۔ [ 8] ادب رسالت کی پاسداری موجب بخشش خداوندی : سو اس ارشاد سے ادب رسالت کا پاس ولحاظ رکھنے والوں کے لیے مغفرت و بخشش کا اعلان فرما دیا گیا۔ چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ " ایسے لوگوں کیلئے ایک عظیم الشان بخشش ہے "۔ یعنی [ مغفرۃٌ] کی تنوین تعظیم و تفحیم کیلئے ہے۔ یعنی ان قدسی صفت حضرات کو ایسی عطٰإ الشان مغفرت و بخشش سے نوازا جائے گا جو ان کی شان اور ان کے مرتبہ و مقام کے لائق ہوگی۔ سو اوپر ان لوگوں کا انجام بیان فرمایا گیا ہے جو پیغمبر ﷺ کی آواز کے مقابلے میں اپنی آواز کو بلند کرنے کی جسارت کرتے تھے کہ ایسوں کے اعمال حبط اور ایسے اکارت چلے جائیں گے کہ ان کو اس کی خبر بھی نہ ہوگی۔ والعیاذ باللّٰہ، اس کے مقابلے میں یہ ان لوگوں کا اجر وثواب بیان ہر رہا ہے جو ادب رسالت کا پاس و احترام کرتے ہوئے اپنی آواز کو رسول کی آواز کے آگے پست رکھتے ہیں۔ فرمایا گیا کہ " ان کے کیلئے عظیم الشان بخشش بھی ہے اور بہت بڑا اجر بھی “ َ یعنی ان کی لغزشوں اور کوتاہیوں کو معاف فرما دیا جائے گا جو بشری تقاضوں کی بنا پر ان سے سرزد ہوگئی ہونگی۔ کہ انہوں نے ادب رسالت کا حق ادا کیا۔ اور انہوں نے اللہ کے رسول ﷺ کے حضور عاجزی اور فروتنی کی روش اختیار کی۔ اور کسی ناروا گھمنڈ میں مبتلا ہو کر اپنے آپ کو ان سے بڑا سمجھنے کی جسارت نہیں کی۔ اسلئے ان کی اس فروتنی اور اس ادب و احترام کا انعام اور صلہ ان کو یہ ملا کی اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو تقویٰ کی افزائش کے لیے منتخب فرما لیا جو کہ ظاہر ہے کہ بہت بڑا شرف و اعزاز ہے۔ اور مزید یہ کہ ان کے لیے عظیم الشان بخشش اور بہت بڑے اجر کا اعلان بھی فرما دیا۔ کہ اس واہب مطلق جل و جلالہ کی شان ہی عطاء بخشش کی ہے فایاہ نسال التوفیق لما یحب ویرضی جل و علا، بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، سبحانہ و تعالیٰ ۔ [ 9] ادب رسالت کے پاسداروں کیلئے اجر عظیم کی بشارت : چناچہ ان کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ " ان کے لیے بہت بڑا اجر بھی ہے "۔ یعنی جنت اور اس کی بےبہا اور لازوال و سدا بہار نعمتیں۔ روایات میں ہے کہ اس آیت کریمہ کے نزول کے بعد حضرت سیدنا صدیق اکبر اور حضرت سیدنا عمر ؓ خاص طور پر اس قدر پست اور دھیمی آواز سے بولتے تھے کہ آنحضرت ﷺ کو دوبارہ پوچھنا پڑتا تھا۔ پس اس ارشاد میں ان دونوں حضرات کے لئے خاص طور پر بہت بڑی بشارتیں ہیں کہ ان کے دلوں کو قدرت نے تقویٰ کے لئے خاص فرما دیا تھا۔ ان کے لئے عظیم بخشش بھی ہے اور بہت بڑا اجر وثواب بھی۔ شیاد اسی بنا پر دنیا کے علاوہ برزخ میں بھی ان دونوں حضرات کو پیغمبر کی معیت نصیب ہوئی کہ ان کی قبریں آنحضرت ﷺ کی قبر کے ساتھ ہیں۔ اور جنت میں بھی ان کو یہ معیت ورفاقت نصیب ہوگی۔ پس بڑے ہی بدبخت اور منحوس ہیں وہ لوگ جو ان دونوں بزرگوں کی شان میں گستاخیاں کرتے اور ان کے دین و ایمان تک میں کیڑے نکالتے ہیں۔ ایسے مومن کس طرح ہوسکتے ہیں ؟ [ قاتلہم اللّٰہ انی یوفکون ] ۔ بہرکیف ایسے حضرات نے اللہ اور اس کے رسول کے سامنے عاجزی اور فروتنی کی روش اختیار کی اور کسی گھمنڈ میں مبتلا ہو کر آپ کے سامنے خواہ مخواہ بڑا بننے کی جسارت نہیں کی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو اس فروتنی اور عاجزی کا انعام ان کو یہ دیا کہ ان کے دلوں کو تقویٰ و پرہیزگاری اور اس کی افزائش کیلئے منتخب فرمایا جس کا اجر و صلہ اللہ تعالیٰ کے یہاں بہت بڑا ہے۔ والحمدللّٰہ جل وعلا۔
Top