Tafseer-e-Madani - Al-Hujuraat : 8
فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ نِعْمَةً١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ : اللہ کے فضل سے وَنِعْمَةً ۭ : اور نعمت وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ : اور اللہ جاننے والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
محض اللہ کے فضل اور اس کے احسان سے اور اللہ سب کچھ جانتا نہایت حکمت والا ہے
[ 19] نور حق و ہدایت اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ نور حق و ہدایت سے سرفرازی اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم ہی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ " محض اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور اس کے احسان سے "۔ یعنی یہ بخشش و عطا محض اس کا کرم و احسان ہے نہ کہ کسی کا اس پر کوئی حق کہ نوازنا اور کرم و احسان فرمانا اس کی شان ہے۔ جل و علا۔ البتہ وہ اس سے نوازتا انہی کو ہے جو اس کے اہل ہوتے ہیں اور اس کیلئے طلب صادق رکھتے ہیں۔ پس یہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اس کا انعام و احسان ہے جو اس نے ان اصحاب صدق و صفا پر فرمایا جس سے ان کے دل ایمان کے نور سے منور اور اس کے جمال سے مزین ہوگئے۔ اور ایسے حضرات کفر و انکار فسق و فجور اور معاصی وذنوب کی ظلمتوں اور ان کے ہر شائبے سے محفوظ اور ان سے بیزار و نفور ہوگئے۔ اس لیے ان کو اس پر ہمیشہ اپنے رب کا شکر گزار رہنا چاہئے اور خام کاروں کی طرح ان کو کبھی اس وہم میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ یہ سب کچھ ان کو ازخود یونہی مل گیا۔ یا یہ ان کے کسی استحقاق کا نتیجہ تھا وغیرہ۔ سو اس طرح کی کوئی بات نہ ہے نہ بلکہ یہ کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم ہی سے ہوا نور حق و ہدایت سے سرفرازی اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا نتیجہ ہے۔ والحمدللّٰہ جل وعلا، بکل حال من الاحوال۔ [ 20] اللہ تعالیٰ کے علم اور اس کی حکمت کا حوالہ و ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " اللہ سب کچھ جانتا نہایت ہی حکمت والا ہے "۔ پس وہ جانتا ہے اور پوری طرح جانتا ہے کہ کون اس کے فضل و کرم کا مستحق ہے اور کس قدر مستحق ہے۔ کتنے کا تحمل وہ کرسکتا ہے اور اس کے ظرف محدود میں کتنی اور کس قدر گنجائش ہے۔ نیز چونکہ وہ حکیم بھی ہے اس لئے وہ جو بھی کچھ کرتا ہے اپنی حکمت بےپایاں کے تقاضوں کے مطابق ہی کرتا ہے۔ جس کا احاطہ بھی اس وحدہ لاشریک کے سوا کوئی نہیں کرسکتا۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ پس فوز و فلاح اور رشد و صلاح صرف اسی وحدہ لاشریک کے فرامین و ارشادات پر ایمان و یقین اور ان کی پیروی و اتباع میں ہے۔ علیم اور حکیم کی ان دو صفتوں کے حوالے سے اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل اس کے علم اور حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔ اس کی تقسیم کسی اندھے کی تقسیم کی طرح نہیں۔ وہ اپنے دین کی نعمت سے انہی لوگوں کو نوازتا ہے جن کو وہ اس کا اہل پاتا ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ پس پس بندوں کو اس کے ہر حکم و ارشاد پر مطمئن رہنا چاہیے کہ اسی میں ہماری بہتری ہے، نیز اس سے یہ درس بھی ملتا ہے کہ بندے کو اپنا تعلق ہمیشہ اس علیم و حکیم رب قدوس کے ساتھ صحیح اور درست رکھنا چاہیے تاکہ اس کی طرف سے علم اور حکمت کی دولت سے سرفراز ہو سکے۔ وباللّٰہ التوفیق، اللّٰہم فخذنا بنواصینا الی ما فیہ حبک ورضاک، بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، یا ذا الجلال والاکرام۔
Top