Tafseer-e-Madani - Al-Maaida : 102
قَدْ سَاَلَهَا قَوْمٌ مِّنْ قَبْلِكُمْ ثُمَّ اَصْبَحُوْا بِهَا كٰفِرِیْنَ
قَدْ سَاَلَهَا : اس کے متعلق پوچھا قَوْمٌ : ایک قوم مِّنْ قَبْلِكُمْ : تم سے قبل ثُمَّ : پھر اَصْبَحُوْا : وہ ہوگئے بِهَا : اس سے كٰفِرِيْنَ : انکار کرنے والے (منکر)
تم سے پہلے ایک گروہ ایسی باتیں پوچھ چکا ہے، پھر (جواب ملنے پر) وہی ان کے منکر ہوگئے،2
268 غیر ضروری سوالات باعث ہلاکت ۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ تم سے پہلے بھی کچھ لوگوں نے اسی طرح کی باتوں کے بارے میں پوچھا لیکن [ جواب ملنے پر ] پھر وہی لوگ ان کے منکر ہو گیے۔ یعنی اس سے مقصود بعینہ یہی سوالات نہیں بلکہ انہی کی جنس سے تعلق رکھنے والے اسی طرح کے غیر ضروری اور لایعنی سوالات ہیں۔ (تفسیر القاسمی و تفسیر المراغی وغیرہ) ۔ یعنی پہلی امتوں نے جو سوالات پوچھے تھے وہ بھی اسی طرح کے غیر ضروری اور لایعنی سوالات تھے اور ان کے نتیجے میں ان قوموں پر ایسے ہی وبال اور مصائب آئے تھے۔ یہاں تک کہ وہی لوگ ان کے منکر ہوگئے۔ چناچہ بنی اسرائیل اپنے پیغمبروں سے اسی طرح کے غیر ضروری اور لایعنی سوالات کرتے۔ پھر جب جواب ملتا تو وہ اس کے منکر ہوجاتے اور اس کے نتیجے میں وہ ہلاکت میں جاگرتے۔ (محاسن التاویل اور مراغی وغیرہ) ۔ سو اس طرح کے غیر ضروری سوالات باعث ہلاکت ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور جس طرح غیر ضروری سوالات کرنا منع ہے اسی طرح کثرت سوالات یعنی زیادہ سوالات کرنا بھی ممنوع ہے۔ جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ میں آنحضرت ﷺ سے اس بارے ممانعت ذکر ہوئی ہے۔ چناچہ روایت میں ہے ۔ " نَہیٰ رَسُوْلُ اللّٰہ ﷺ عَنْ قِیْلَ وَقَال وَعَنْ کَثْرَۃِ السُّوَال وَعَنْ اضاعَۃِ المال " ۔ یعنی " اللہ کے رسول نے منع فرمایا قیل وقال سے، کثرت سوال سے اور مال کے ضائع کرنے سے " ۔ والعیاذ باللہ ۔ 269 پیغمبر کا کام ازخود حکم دینا نہیں اتباع کرنا ہوتا ہے : اور پیغمبر کی بات ماننے ہی میں لوگوں کا بھلا ہوتا ہے مگر ایسے لوگوں نے حکم ملنے کے بعد اس کی تعمیل نہیں کی۔ بلکہ یہ اس کے منکر ہوگئے اور انہوں نے اس کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا۔ حکم بہرحال اللہ ہی کی طرف سے نازل ہوتا ہے کہ حاکم وہی ہے ۔ { اِنِ الْحُکْمُ اِلّا لِلّٰہِ } ۔ پس اس موقع پر اہل بدعت کے بعض بڑوں اور انکے زعماء اور رؤساء کا یہ کہنا کہ اس سے معلوم ہوا کہ احکام حضور کو مفوض ہیں۔ جو فرض فرمائیں فرض ہوجائے اور جو نہ فرمائیں نہ ہو۔ اور ان کے ایک مشہور تحریف پسند کا اس سے آگے بڑھ کر یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ نے حضور کو مالک احکام بنادیا ہے، ایک ایسا دعویٰ اور قول ہے جو کہ عقل کے بھی خلاف ہے اور نقل کے بھی، کہ حضور۔ (علیہ الصلوۃ والسلام) ۔ کا وصف ہے رسول اور پیغمبر۔ کہ آپ اپنے رب کی طرف سے پیغام پہنچاتے ہیں نہ یہ کہ ازخود اپنی طرف سے حکم دیں۔ آپ ﷺ کا صاف وصریح اعلان و ارشاد ہے ۔ { اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰیٓ اِلَیَّ } ۔ (یونس : 15) ۔ کہ میرا کام تو صرف پیروی کرنا ہے اس وحی کی جو میری طرف بھیجی جاتی ہے نہ کہ اپنی طرف سے کوئی حکم دینا۔ وہ وحی خواہ جلی ہو یعنی قرآن حکیم یا خفی جیسے احادیث کریمہ۔ اور اللہ پاک کی طرف سے آپ کو حکم بھی صرف اتباع اور پیروی کا ہے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں جگہ جگہ ارشاد فرمایا گیا ہے۔ مثلاً فرمایا گیا ۔ { اِتَّبِعْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِکَ } ۔ یعنی " پیروی کرو تم اس وحی کی جو تمہاری طرف بھیجی جاتی ہے تمہارے رب کی طرف سے ‘ (الانعام آیت 107) ۔ { وَاتَّبِعْ مَا یُوْحٰیٓ اِلَیْکَ وَاصْبِرْ } ۔ (یونس : آیت نمبر 109) " اور پیروی کرو تم اس وحی کی جو تمہاری طرف بھیجی جاتی ہے اور صبر سے کام لیتے رہو " ۔ { وَاتَّبِعْ مَا یُوْحٓیٰ اِلِٓیْکَ مِنْ رَّبِکَ } ۔ (الاحزاب : آیت نمبر 2) " اور پیروی کرو اس وحی کی جو آپ کی طرف بھیجی جاتی ہے آپ ﷺ کے رب کی طرف سے " وغیرہ وغیرہ کتنی ہی آیات کریمہ میں اس بات کی تصریح ہے کہ پیغمبر کا کام تو صرف پیروی کرنا ہوتا ہے اس وحی کی جو ان کی طرف ان کے رب کی جانب سے آتی ہے نہ کہ ازخود اپنی طرف سے احکام جاری کرنا۔ اور آپ ﷺ خود صاف اور صریح طور پر اعلان فرماتے ہیں کہ میں اپنی طرف سے نہ کسی حلال کو حرام کرسکتا ہوں اور نہ کسی حرام کو حلال۔ (صحیح بخاری : ج ا ص 438، صحیح مسلم : ج ص 29) وغیرہ۔ بلکہ میرا کام تو صرف پیروی کرنا ہے اس وحی کی جو اللہ کی طرف سے میرے پاس آتی ہے اور بس۔ اسی لئے قرآن پاک میں آپ کو اس بارے ان الفاظ میں تنبیہ بھی فرمائی گئی ہے ۔ { یَآ اَیُّہَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِمُ مَا اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ } ۔ (التحریم : 1) کہ " اے پیغمبر آپ ایک ایسی چیز کو اپنے لئے حرام کیوں ٹھہراتے ہیں جس کو اللہ نے آپ کے لئے حلال قرار دیا ہے "۔ اور یہ تنبیہ اس موقع پر نازل ہوئی جب کہ آپ ﷺ نے ایک خانگی مصلحت کی بنا پر شہد کو قسم کھا کر اپنے اوپر حرام فرما لیا تھا۔ چناچہ صحیح احادیث کے مطابق آپ ﷺ نے اپنی اس قسم کو توڑ کر اس کا کفارہ دیا اور شہد استعمال فرمایا۔ نیز ارشاد ربانی ہے ۔ { لَیْسَ لَکَ مِنَ الاَمْرِ شَیْئٌ } ۔ (آل عمران : 128) ۔ یعنی " اس معاملے میں آپ کو کوئی اختیار نہیں "۔ اس لئے علماء و فقہاء کرام نے اس کی تصریح فرمائی ہے کہ نبی کا کام اللہ کا پیغام پہنچانا ہوتا ہے اور بس۔ تحلیل و تحریم کا اختیار آپ کو نہیں ہوتا کہ آپ ﷺ صرف نبی و رسول ہوتے ہیں نہ کہ کوئی خدائی اختیار رکھنے والے۔ اس کی مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو : عمدۃ القاری : ج 12 ص 745، اشعۃ اللمعات : ج 3 ص 178، حجۃ اللہ البالغۃ : ج 1 ص 49، الجواہر والیواقیت للشعرانی : ج 2 ص 24، التحریر لابن الہمام الحنفی : ص 224 وغیرہ وغیرہ۔ اس کے باوجود اہل بدعت کے ان پیشواؤں کا یہ کہنا کہ حضور احکام کے مالک اور مفوض ہیں، جو چاہیں حکم دیں اور فرض فرمائیں، ایک لغو اور بےبنیاد قول ہے۔ جو عقل و نقل دونوں کے خلاف ہے۔ جیسا کہ ابھی صاف وصریح آیات اور احادیث کی روشنی میں گزرا۔ اور نصِّ قرآنی کے مطابق پیغمبر خود اپنا منصب نفی و اثبات کے الفاظ و کلمات اور حصر و تاکید کے اسلوب کے ساتھ بیان فرماتے ہیں کہ میرا کام تو صرف وحی کی پیروی کرنا ہے اور بس ۔ { اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰیٓ اِلَیَّ } ۔ دراصل تفویض کا یہ خود ساختہ، نامعقول اور غلو آمیز عقیدہ شیعہ و روافض کا عقیدہ ہے جو ان کی کتابوں میں موجود ہے اور ان کے حالیہ امام خمینی آنجہانی نے بھی اپنی مختلف کتابوں " الحکومۃ الاسلامیۃ " وغیرہ میں لکھا ہے۔ مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو : شرح مواقف ازجرجانی الحنفی :757 اور غنیۃ الطالبین ازشیخ جیلانی : ص 221 وغیرہ۔ اس طرح اہل بدعت نے بھی یہ عقیدہ دراصل انہی لوگوں سے لیا اور اس کو انہوں نے بھی انہی عوامل و محرکات کی بنا پر اپنایا ہے جن کی بنا پر ان لوگوں نے اس کو اپنایا اور اختیار کیا ۔ والعیاذ باللہ ۔ باقی رہی مسلم شریف کی وہ حدیث جس کا حوالہ اس موقع پر ان دونوں اہل بدعت نے دیا ہے تو اس کا صاف اور واضح مطلب یہ ہے کہ حضور نے فرمایا کہ اگر میں اللہ تعالیٰ سے وحی پا کر ہاں کہہ دیتا تو یہ تم پر فرض ہوجاتا۔ اور تم نہ کرسکتے۔ نہ یہ کہ میں ازخود اپنی طرف سے ہاں کرکے فرض کردیتا۔ جیسا کہ اہل بدعت نے سمجھا۔ رہی یہ بات کہ اتنی جلدی وحی کا نزول کیسے ہوسکتا تھا تو اس کا انکار جیسا کہ علامہ طحاوی حنفی نے فرمایا کوئی ملحد و زندیق ہی کرسکتا ہے۔ ورنہ مومن صادق کو اس میں نہ کوئی اشتباہ ہوسکتا ہے نہ استبعاد۔ (ملاحظہ ہو مشکل الآثار) ۔ اہل بدعت کے ان ہی بڑے صاحب نے یہاں پر ایک اور اپچ اس طرح نکالی ہے کہ حدیث شریف میں ہے کہ حلال وہ ہے جسے اللہ حلال کرے اور حرام وہ ہے جسے اللہ نے حرام فرمایا۔ اور جس سے خاموشی رہی وہ معاف ہے۔ لہذا محفل میلاد شریف اور عرس وغیرہ کو چونکہ اللہ رسول نے حرام نہیں فرمایا، لہذا حلال ہے۔ زیغ طبع ملاحظہ ہو کہ ان صاحب نے حدیث خود وہ نقل کی جس میں تصریح ہے کہ تحلیل و تحریم اللہ تعالیٰ کا فعل اور اسی کا اختیار ہے۔ مگر عقیدہ اس کے خلاف یہ بنایا کہ احکام حضور کو مفوض ہیں۔ اور مزید یہ کہ محفل میلاد اور عرس وغیرہ کا جواز اس سے کشید کرتے ہیں کہ چونکہ اس سے اللہ، رسول نے منع نہیں فرمایا، اس لئے یہ حلال ہیں۔ حالانکہ کسی بھی حکم شرعی کے ثبوت کے لئے دلیل مثبت کا ہونا ضروری ہوتا ہے نہ کہ محض یہ مفروضہ کہ اس سے منع نہیں کیا گیا۔ ورنہ اگر کوئی شخص موصوف کی اسی خود ساختہ منطق کی بنا پر انہی کی زبان میں یوں کہنے لگے کہ صاحب نمازیں پانچ نہیں چھ فرض ہیں۔ روزے تیس نہیں چالیس ہیں۔ حج سال میں ایک مرتبہ نہیں دو مرتبہ ہے۔ فجر کی رکعتیں دو نہیں تین ہیں یا ظہر کی چار نہیں پانچ ہیں وغیرہ وغیرہ۔ کہ ان میں سے کسی کے بھی منع اور ناجائز ہونے کے بارے میں کوئی دلیل موجود نہیں۔ لہٰذا ایسا کرنا ممنوع نہیں مباح ہے۔ تو پھر بدعت اور تحریف کے یہ علمبردار اور ان کی کمپنی آخر اس کا کیا جواب دے گی ؟ اور اس کا رد آخرکس بنا پر کرے گی ؟۔ سو موصوف کے اس استدلال کی بنیاد ہی غلط ہے اور بناء الفاسد علی الفاسد کے قبیل سے ہے۔ اور یہ تحریف و تغییر دین کے زمرے میں آتا ہے ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہِ الْعَظِیْمِ مِنْ کُلِّ سُوْئٍ وَّ زَیْغِ وَاِلْحَاد وّانحراف۔
Top