Tafseer-e-Madani - Al-Maaida : 103
مَا جَعَلَ اللّٰهُ مِنْۢ بَحِیْرَةٍ وَّ لَا سَآئِبَةٍ وَّ لَا وَصِیْلَةٍ وَّ لَا حَامٍ١ۙ وَّ لٰكِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ١ؕ وَ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ
مَا جَعَلَ : نہیں بنایا اللّٰهُ : اللہ مِنْۢ بَحِيْرَةٍ : بحیرہ وَّلَا : اور نہ سَآئِبَةٍ : سائبہ وَّلَا : اور نہ وَصِيْلَةٍ : وصیلہ وَّلَا حَامٍ : اور نہ حام وَّلٰكِنَّ : اور لیکن الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا يَفْتَرُوْنَ : وہ بہتان باندھتے ہیں عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر الْكَذِبَ : جھوٹے وَاَكْثَرُهُمْ : اور ان کے اکثر لَا يَعْقِلُوْنَ : نہیں رکھتے عقل
اللہ نے تو نہ کوئی بحیرہ مقرر کیا ہے، نہ سائبہ، نہ کوئی وصیلہ، اور نہ حام، مگر وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا وہ (اپنی ہی طرف سے) جھوٹ (اور بہتان) باندھتے ہیں اللہ پر، اور ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو اپنی عقلوں سے کام نہیں لیتے
270 بَحِیْرَۃ اور اس کا مفہوم ؟ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ نے کوئی " بحیرہ " مقرر نہیں فرمایا جیسا کہ مشرکین عرب کے یہاں رواج تھا کہ جو اونٹنی پانچ بچے جنتی اور اس کا پانچواں بچہ نر ہوتا تو وہ لوگ اس کے کان چیر کر اسے بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے۔ اس سے وہ لوگ کوئی فائدہ نہ لیتے۔ نہ اس پر سواری کرتے نہ بوجھ لادتے۔ نہ اس کو ذبح کرتے اور نہ اس کو کہیں چرنے یا پانی پینے سے روکتے۔ وہ آزادانہ جہاں چاہتی جاتی، چرتی، پانی پیتی۔ اس کو کوئی روک ٹوک نہ ہوتی۔ اس کو یہ لوگ " بحیرہ " کہتے تھے۔ اور " بحیرہ "، " بحر " سے بنا ہے جسکے معنیٰ چیرنے کے آتے ہیں۔ سو " بَحِیْرَہ "، " فَعِیْلَہ " بمعنیٰ مفعول ہے۔ یعنی وہ اونٹنی جسکے کان چیر دیئے گئے ہوں۔ (المحاسن وغیرہ) ۔ سو دین حق میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ 271 { سَائِبَۃ } اور اس کا مفہوم ؟ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اور نہ ہی اللہ نے کوئی سائبہ مقرر فرمایا ہے جس کو وہ لوگ شفا وغیرہ کی غرض کے لئے بتوں کے نام کی نذر کر کے یونہی کھلا چھوڑ دیتے تھے۔ جیسا کہ ہندو لوگ اپنے بتوں اور دیویوں وغیرہ کے نام کے سانڈ چھوڑتے ہیں۔ اور کئی جاہل مسلمان بھی کسی بزرگ یا قبر وغیرہ کے نام کی کوئی منت و نذر مان کر اس کو یونہی چھوڑ دیتے ہیں۔ جس طرح کہ " بحیرہ " سے کوئی خدمت نہیں لی جاتی تھی۔ نیز " سَائِبَۃ " اس اونٹنی کو کہا جاتا تھا جو دس بچے جنے اس طرح کہ وہ سب کے سب مادہ ہوں ان کے درمیان کوئی نر بچہ نہ ہو۔ ایسی اونٹنی کو وہ لوگ بتوں کے نام پر آزاد چھوڑ دیتے۔ نہ اس پر بوجھ لادا جاتا نہ سواری کی جاتی۔ نہ اس کی اون کاٹی جاتی نہ اس کا دودھ پیا جاتا۔ (محاسن التاویل وغیرہ) ۔ سو یہ سب کچھ ان لوگوں کے اپنے توہمات پر مبنی تھا جس کی نہ کوئی اصل تھی نہ بنیاد۔ اور ایسی فرضی اور وہمی چیزوں کے لئے اسلام میں کوئی گنجائش ہو ہی نہیں سکتی۔ پس یہ سب مردود ہے۔ 272 { وَصِیْلَۃ } اور اس کا مفہوم ؟ : سو ارشاد فرمایا گیا اور نہ ہی اللہ نے کوئی وصیلہ مقرر فرمایا ہے۔ یعنی جو بکری دو مرتبہ مادہ جنے۔ اس طرح کہ اس کے بیچ اس نے کوئی نر بچہ نہ دیا ہو۔ اس کو بھی وہ لوگ بتوں کے نام نذر کر کے آزاد چھوڑ دیتے۔ اور بعض نے کہا کہ " وصیلہ " اس بکری کو کہتے ہیں جو اپنی ماں کے ساتویں بطن میں اپنے بھائی کے ساتھ پیدا ہوئی ہو۔ اس کو بھی وہ لوگ یونہی آزاد چھوڑ دیتے اور کہتے کہ یہ بکری اپنے بھائی سے مل گئی۔ پھر وہ اس کی وجہ سے اس کے بھائی کو بھی ذبح نہ کرتے اور اس کے دودھ کو مردوں کیلئے حلال قرار دیتے اور عورتوں کیلئے حرام۔ (محاسن وغیرہ) ۔ سو " سائبہ " کی طرح " وصیلہ " کے بھی دو مفہوم و مطلب ہوگئے اور یہ دونوں ہی صورتیں زمانہ جاہلیت میں پائی جاتی تھیں۔ اور یہ سب کچھ ان کے اوہام و خرافات کا نتیجہ تھا ۔ والعیاذ باللہ جل وعلا - 273 { حَام } اور اس کا مفہوم ؟ : سو ارشاد فرمایا گیا اور نہ ہی اللہ نے کوئی جام مقرر فرمایا ہے۔ یعنی وہ اونٹ جس کی جفتی سے دس بچے پیدا ہوچکے ہوں۔ اس کو بھی وہ لوگ بتوں کی نذر کر کے یونہی آزاد چھوڑ دیتے تھے اور اس سے وہ کوئی خدمت وغیرہ نہیں لیتے تھے۔ گویا اس طرح اس نے اپنی پیٹھ کی حمایت و حفاظت کا سامان کرلیا۔ اس لئے اس کو وہ " حام " کہتے تھے۔ اور ان جانوروں کی تعریف و تعیین میں اور بھی کئی اقوال مروی ہیں۔ لیکن ان میں کوئی منافات نہیں کہ سب ہی صورتیں وہاں موجود تھیں اور یہ سب کی سب اوہام و خرافات پر مبنی تھیں۔ کوئی اصل و بنیاد ان کی نہیں تھی۔ اور یہی نتیجہ ہوتا ہے نور علم و ہدایت سے محرومی کا کہ اس کے بعد انسان ایسے ہی طرح طرح کے اندھیروں میں بھٹکتا پھرتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ پس وحی خداوندی کا نور ہی وہ نور عظیم ہے جو انسان کو راہ ِحق و ہدایت سے بہرہ مند و سرفراز کرتا ہے اور اس کو تہ در تہ اندھیروں سے نکال کر کے حق و ہدایت کے اجالے اور روشنی کی طرف لاتا ہے ۔ فَالحمد للّٰہِ الذِی شَرَّفَنَا بالصِرَاطِ الْمُسْتَقِیْم ۔ اَللّٰھُمَّ فَثَبِتنا عَلَیہ یا ذَا الْجَلَالِ وَالاِکْرَام - 274 کسی حلال کو از خود حرام ٹھہرانا اللہ پر بہتان باندھنا ہے ۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ جن لوگوں نے کفر کیا وہ اپنی طرف سے جھوٹ باندھتے ہیں اللہ پر اور اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کی حلال چیزوں کو ازخود حرام قرار دیتے ہیں۔ سو اس سے معلوم ہوا کہ کسی حلال چیز کو بلا کسی شرعی دلیل کے ازخود یونہی حرام قرار دے دینا اللہ پر جھوٹ گھڑنا اور بہتان باندھنا ہے جو کہ بڑا ہی سنگین جرم ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ کیونکہ اللہ پاک ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ نے جن پاکیزہ چیزوں کو اپنے بندوں کیلئے پیدا فرمایا ہے ان کو حرام قرار دینے کا حق کسی کو نہیں پہنچ سکتا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا ۔ { قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ وَالطِیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ } ۔ (الاعراف : 32) ۔ یعنی " ان سے کہو اے پیغمبر کہ کس نے حرام کیا اس زینت کو جس کو اللہ نے پیدا فرمایا ہے اپنے بندوں کے لئے اور ان پاکیزہ چیزوں کو جو اس نے ان کو عطا فرمائی ہیں ؟ "۔ اسی لیے حدیث میں ان بدعات کے موجد عمرو بن الخزاعی کے بارے میں سخت عذاب کا ذکر آیا ہے۔ چناچہ صحیح بخاری و مسلم وغیرہ میں حضرت ابوہریرۃ ؓ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے عمرو بن عامر الخزاعی کو دیکھا کہ وہ اپنی انتڑیاں دوزخ کی آگ میں گھسیٹ رہا ہے کہ یہی وہ پہلا شخص تھا جس نے " بحیرہ " اور " سائبہ " وغیرہ کو رواج دیا اور دین اسماعیل کو بدلا۔ (بخاری : کتاب التفسیر، سورة المآئدۃ، مسلم : کتاب الجنتہ وصفۃ نعیمہا و اھلہا) افسوس کہ آج امت مسلمہ کے اندر بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو دور جاہلیت کے لوگوں کے نقش قدم پر اس طرح حماقتوں کا ارتکاب کرتے ہوئے اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام اور اس کی حرام کردہ چیزوں میں سے کچھ کو حلال قرار دیتے ہیں۔ اور اس کے لیے وہ طرح طرح کے مفروضوں اور من گھڑت ڈھکوسلوں سے کام لیتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ 275 کفر و شرک مت ماری کا باعث ۔ والعیاذ باللہ : سو کفر و شرک اور احداث و بدعت کی نحوست سے انسان کی مت مار دی جاتی ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو اپنی عقلوں سے کام نہیں لیتے۔ سو مت ماری کے باعث ۔ والعیاذ باللہ ۔ ایسے لوگ عقل کی روشنی سے کام نہیں لیتے ورنہ وہ ایسی ایسی حماقتوں کا ارتکاب نہ کرتے۔ اور اللہ پاک پر ایسے ایسے بہتان باندھنے کی جسارت کبھی نہ کرتے۔ دراصل شرک و بدعت کی نحوست سے ایسے لوگوں کی عقل مار دی جاتی ہے جس سے وہ اس قدر موٹی بات بھی سمجھنے کے قابل نہیں رہتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور { اَکْثَرَھُمْ } کے لفظ سے اس حقیقت کو پھر آشکارا فرما دیا گیا کہ اکثر لوگ عقل و خرد کے نور سے محروم ہوتے ہیں۔ اس لیے عوام کی اکثریت کی تائید و تردید کو کسی امر کے حق یا باطل ہونے کیلئے معیار نہیں قرار دیا جاسکتا۔ جس طرح کہ مغربی جمہوریت کے پجاریوں کا کہنا اور ماننا ہے۔ اور جس طرح کہ ہمارے یہاں کے اہل بدعت کا کہنا ہے۔ بہرکیف یہاں سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ کفر و شرک اور احداث و بدعت سے انسان کی مت مار دی جاتی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ جس سے وہ سیدھی اور صحیح بات سمجھنے اور ماننے کے قابل نہیں رہتا۔ اور کفر و شرک اور بدعت کے ماروں کے طور طریقوں سے ان کی مت ماری کا اندازہ بآسانی لگایا جاسکتا ہے اور اس کے مظاہر یہاں اور وہاں جگہ جگہ اور طرح طرح سے ملتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ ہمیشہ اپنی حفاظت اور پناہ میں رکھے ۔ آمین۔
Top